بنگلہ دیش سے سیریز میں پاکستان کو آسٹریلیا سے خطرہ

آئی سی سی کی درجہ بندی کے فارمولے میں محض جیتنے سے پوائنٹ نہیں بڑھتے بلکہ ہارنے سے کم بھی ہوجاتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اگر ایک میچ بھی ہارتا ہے تو آسٹریلیا پہلی پوزیشن چھین سکتا ہے۔

آسٹریلیا اور اس سے پہلے سری  لنکا سے سیریز ہارنے کے بعد پاکستان ٹیم سخت دباؤ میں ہے(اے ایف پی)

منتوں اور مرادوں سے پاکستان پہنچنے والی بنگلہ دیشی ٹیم کہیں گرین شرٹس کو آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن سے ہٹانے کا  سامان تو نہیں بن جائے گی؟ یہ ایک ایسا خوف ہے جس نے ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں کو گھیر رکھا ہے۔

پہلی دفعہ اپنی ہی سرزمین پر قیادت کرنے والے بابر اعظم کے لیے بنگلہ دیش کے خلاف 24 جنوری سے شروع ہونے والی تین میچوں کی سیریز ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ انھیں اپنی بیٹنگ کے ساتھ ساتھ کپتانی کے جوہر بھی دکھانے ہوں گے۔

36 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 1405 رنز بنانے والے بابر اعظم اس وقت ٹی ٹوئنٹی آئی سی سی رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر ہیں اور ان کی موجودہ فارم دیکھتے ہوئے نہیں لگتاکہ وہ یہ پوزیشن آسانی سے کسی اور کو دیں گے۔ 

تاہم کل جب وہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پہلے میچ میں ٹاس کرنے جائیں گے تو ان کے  ذہن کے کسی کونے میں یقیناً  ٹیم کی رینکنگ بھی ہو گی  کیونکہ پاکستان کو ٹاپ پوزیشن سے ہٹانے کے لیے آسٹریلیا کو صرف ایک پوائنٹ درکار ہے۔

 آئی سی سی کی درجہ بندی کے فارمولے میں محض جیتنے سے پوائنٹ نہیں بڑھتے بلکہ ہارنے سے کم بھی ہوجاتے ہیں۔

اس منفی مارکنگ کے تناظر میں موجودہ سیریز خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان اگر ایک میچ بھی ہارتا ہے تو آسٹریلیا پہلی پوزیشن چھین سکتا ہے۔

پاکستان نے اس سیریز کے لیے جہاں کئی نئے کھلاڑی شامل کیے ،وہیں دستے میں دو ایسے تجربہ کار کھلاڑی شامل ہیں جن کے مجموعی میچوں کی تعداد پاکستان کے کل میچوں سے زیادہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شعیب ملک اور محمد حفیظ کی موجودگی میں پاکستان ٹیم کی قوت تو بڑھے گی لیکن موثر کتنی ہوگی یہ سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ دونوں پچھلے ایک سال سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔

کل کے میچ میں بابر اعظم کے ساتھ احسان علی اوپن کر سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے احسان علی نے گذشتہ پی ایس ایل میں آٹھ میچوں میں 178 رنز بنائے تھے، حالانکہ اسی پی ایس ایل میں احمد شہزاد نے اتنے ہی میچوں میں 311 رنز بنائے تھے اور حالیہ قائد اعظم ٹرافی میں بھی اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں لیکن شاید وہ بوم بوم (شاہد آفریدی) کے قریبی دوست ہونے کی قیمت ادا کر رہے ہیں جنھیں مبینہ طور پر ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق آج بھی اپنا حریف سمجھتے ہیں۔

پاکستان ممکنہ طور پر افتخار احمد کو ون ڈاؤن پوزیشن پر کھلائے گا جو آسٹریلیا میں دو اچھی اننگز کھیل چکے ہیں۔

ان کے بعد محمد حفیظ، شعیب ملک اور وکٹ کیپر رضوان مڈل آرڈر میں  نظر آ سکتے ہیں  جبکہ عماد وسیم، عماد بٹ، شاداب خان ،شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف ممکنہ طور پر بولنگ کا شعبہ سنبھالیں گے۔ 

شاداب خان کی بولنگ فارم مسلسل زوال پزیر ہے، اسی لیے کرکٹ صحافی شاہد ہاشمی کہتے ہیں کہ لیگ سپنر عثمان قادر کو اس سیریز میں آزما لینا چاہیے کیونکہ اگر انھیں ابھی نہیں پرکھا گیا تو پھر  کب پرکھیں گے۔

بنگلہ دیش کی ٹیم یہ دورہ اپنے دو انتہائی اہم کھلاڑیوں شکیب الحسن اور مشفق الرحیم کے بغیر کر رہی ہے۔ تاہم کپتان محموداللہ، تمیم اقبال، لٹن داس اور سومیا سرکار بیٹنگ میں کسی بھی وقت بھاری پڑسکتے ہیں۔

مصباح کے ذہن میں یقینی طور پر بنگلہ دیش اور بھارت کا پچھلے نومبر کا ایک میچ ہوگا جب دہلی میں بنگال ٹائیگرز نےمضبوط بھارتی ٹیم کو دھول چٹا دی تھی۔

بولنگ میں مستفیض الرحمٰن اور امین حسین کے ساتھ محمود اللہ پاکستانی بلے بازوں کو تنگ کر سکتے ہیں خاص طور سے مستفیض۔ 

آسٹریلیا اور اس سے پہلے سری  لنکا سے سیریز ہارنے کے بعد پاکستان ٹیم سخت دباؤ میں ہے۔ 

دونوں سیریز میں بیٹنگ کے کلک نہ کرنے کے باعث پاکستان ہارا۔ ٹیم کے کوچ اور چیف سلیکٹر تو بیٹنگ لائن کے اس طرح ناکام ہونے پر شرمندگی کی بجائے ڈھٹائی سے بلے بازوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔

وہ ہر پریس کانفرنس میں ایک ہی بات کرتے ہیں کہ ٹیم تشکیل کے مراحل میں ہے اور اکتوبر میں آسٹریلیا میں آئی سی سیٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے لیے ٹیم تیار کر رہے ہیں، لیکن ریٹائرمنٹ کے قریب کھلاڑیوں کو کھلا کر وہ نجانے کون سی ٹیم تیار ہو رہے  ہیں۔ اگر یہ کھلاڑی کامیاب نہ ہوئے تو پاکستان کو ورلڈ کپ میں کچھ بالکل ہی نئے کھلاڑیوں کے ساتھ جانا پڑے گا۔

کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ بھی پاکستان کرکٹ میں کوئی روح نہیں پھونک سکی ۔

موجودہ سیریز کے لیے بورڈ کو کوئی بڑا ٹائٹل سپانسر نہیں ملا، اسی لیے تین چھوٹے سپانسرز سے کام چلایا جارہاہے۔

تین میچوں کی یہ سیریز پاکستانی شائقین کو تو شاید کچھ لطف کے لمحات دے جائے لیکن اگر پاکستان ایک میچ بھی ہار گیا تو پہلی پوزیشن سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ 

رواں سال کے شیڈول کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ اس پوزیشن پر دوبارہ آنے کے لیے  پاکستان کو ایک دو سال انتظار کرنا پڑ جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ