کیا میڈیا کرونا وائرس کو ضرورت سے زیادہ کوریج دے رہا ہے؟

فلو جیسی عام سمجھی جانے والی بیماری ہر سال امریکہ اور دنیا بھر میں کرونا وائرس سے کہیں زیادہ یعنی ہزاروں جانیں لے لیتی ہے، تو کہیں میڈیا کرونا کو زیادہ ہوا تو نہیں دے رہا؟

پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنی کے اسلام آباد میں واقع دفتر میں کام کے سلسلے سے آنے والے لوگ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ماسک پہنے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

ان دنوں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے جان لیوا اور تیزی سے منتقل ہونے والے کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں کیونکہ یہ وائرس چین کی سرحدوں سے نکل کر امریکہ، یورپ اور ایشیا کے 24 ملکوں میں پھیل چکا ہے۔

تاہم فلو جیسی عام سمجھی جانے والی بیماری ہر سال امریکہ اور دنیا بھر میں اس سے زیادہ یعنی ہزاروں جانیں لے لیتی ہے۔ تو کیا میڈیا کرونا کو زیادہ ہوا دے رہا ہے؟  

فلو سے ہر سال دنیا بھر میں کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے ’اے بی سی‘ نے امریکہ میں امراض سے بچاؤ اور تحفظ کے مرکز (سی ڈی سی) کے حوالے سے بتایا کہ صرف 2019 میں امریکہ میں 10 ہزار لوگ فلو سے ہلاک جبکہ ایک لاکھ 80 ہزار ہسپتال میں زیر علاج رہے۔

فلو وائرس دسمبر سے فروری تک عروج پر ہوتا ہے اور اخبار یو ایس اے ٹوڈے کے مطابق فلو کے ایک مہلک سیزن میں 60 ہزار تک امریکی اموات ہو سکتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہرسال فلو سے تقریباً ساڑھے چھ لاک لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یہ تعداد چین میں تین فروری تک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات (360) سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں مرس (858 اموات)، ایچ 7این9 (616 اموات) اور کرونا (360 اموات) سے ہونے والی مجموعی 1834 اموات سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

’بزنس انسائیڈر‘ ویب سائٹ  پر شائع شدہ ایک چارٹ کے مطابق اس سے قبل 10-2009 میں 214 ملکوں کو متاثر کرنے والے ایچ 1 این 1 وائرس سے دو لاکھ 84 ہزار، 1976 میں نو ملکوں میں پھیلنے والے ایبولا وائرس سے دنیا بھر میں 13 ہزار 562 اموات ریکارڈ ہوئی تھیں۔

اس کے علاوہ 2002 میں 29 ملکوں میں پھیلنے والے سارس وائرس سے 774 جبکہ 2012 میں 28 ملکوں کو متاثر کرنے والے مرس سے 858 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

تاہم اگر دیکھا جائے تو جتنی میڈیا کوریج کرونا وائرس، سارس یا مرس کو ملی اس کا معمولی حصہ بھی فلو وائرس سے ہونے والی ہزاروں ہلاکتوں کو نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دسمبر میں شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا سے چین میں اب تک کم از کم 360 افراد ہلاک جبکہ 17 ہزار سے زائد متاثر ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس سے متعلق اپنی سفارشات میں چین کے ساتھ تجارتی تعلق یا سفر محدود کرنے کو نہیں کہا لیکن اب تک 22 ملک چین سے آنے والے افراد پر عارضی سفری پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔

اسی طرح چین کے سرحدی ممالک مثلاً روس، نیپال اور منگولیا نے چین کے ساتھ سرحدیں بند کر دی ہیں جبکہ دنیا بھر سے تقریباً 40 فضائی کمپنیوں نے چین میں اپنے آپریشن محدود یا معطل کر دیے ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق کرونا وائرس اور فلو کی علامات ملتی جلتی ہیں۔ کرونا وائرس بھی فلو کی طرح چھینک اور نزلے کے ذریعے پھیلنے والے مہین قطروں سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ 

پچھلے ایک مہینے سے عالمی میڈیا اس مہلک وائرس سے جڑی خبروں کو اپنی شہ سرخیوں میں مسلسل جگہ دے رہا ہے، جس بنا پر ضرورت سے زیادہ ردعمل، نسل پرستانہ اور عوامی تشویش کی شکایات سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔

بعض حلقے کرونا وائرس کی ’نسل پرستانہ‘ سرخیوں کی وجہ سے فرانسیسی اور آسٹریلوی اخباروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ دنیا کے کئی ملکوں میں چینی باشندوں کے خلاف امتیازی رویے رپورٹ ہو رہے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنوبی کوریا، جاپان اور ویتنام میں کئی ریستورانوں نے چینی شہریوں کو کھانا دینے سے منع کر دیا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں ہجوم نے ایک ہوٹل کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں ٹھہرے ہوئے چینی باشندوں کو باہر نکالنے کا مطالبہ کیا۔

برطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے بھی چینی نژاد برطانوی شہریوں کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں اور آس پاس کے لوگوں کے امتیازی رویے محسوس کر رہے ہیں۔

یہ بھی تاثر ہے کہ اس وبا کی کوریج کے ذریعے امریکہ اور اس کے اتحادی چین ’کے خلاف جنگ‘ کر رہے ہیں۔ 

آسٹریلوی صحافی جون پلگر نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں کہا: ’کرونا وائرس کی آڑ میں امریکہ اور اس کے ’اتحادی‘ چین سے جنگ کر رہے ہیں۔ یہ نسل پرستانہ سفری پابندیاں اور میڈیا میں شور عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ نہیں ہیں۔ چین نے ماڈل طریقے سے اس صورت حال سے نمٹا ہے۔ یہ امریکہ کے برعکس ہے جہاں جاری فلو کی وبا میں اب تک 10 ہزار لوگ ہلاک ہوگئے ہیں اور یہ کہیں خبروں میں نہیں۔‘

لیکن دوسری جانب کرونا وائرس کو ضرورت سے زیادہ میڈیا کوریج ملنے کی ایک توجیہہ یہ ہے کہ فلو کی بیماری سال ہا سال سے موجود ہے اور اس کی باقاعدہ ویکسین بھی دستیاب ہے، تو اسے کسی حد تک ویکسین سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کرونا وائرس دسمبر میں ایک دم سامنے آیا اور بہت ہی مختصر وقت میں تیزی سے پھیلا۔

کرونا وائرس سے متعلق بھرپور عالمی تشویش کی ایک وجہ اس کا علاج نہ ہونا ہے۔ طبی ماہرین اور سائنس دان اس کا علاج تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہیں اس ضمن میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بنکاک میں ڈاکٹروں نے کرونا وائرس سے شدید متاثر مریضوں کو نزلے اور ایچ آئی وی کی ادویات ملا کر دی ہیں جس کے ابتدائی نتائج کے مطابق مریضوں میں 48 گھنٹے میں نمایاں بہتری آئی تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا یہ علاج اس مرض میں مبتلا دوسرے مریضوں کے علاج میں کس قدر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت