سوال کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں؟

 سوال کبھی پھانسی اور سنگساری سے تو نہیں مرتا۔ سوال تو بلکہ کبھی بھی نہیں مرتا۔ وہ مطمئن ہو کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ تو جاتا ہے، مرتا کبھی بھی نہیں ہے۔

پیرس میں ’دا تھینکر‘ کا مجسمہ (پکسابے)

ہزاروں سال کی معلوم انسانی تاریخ میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ نہیں بدلی تو سوال کو قتل کرنے اور ہراساں کرنے کی روایت۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں لیتے۔ سبق یہ ہے کہ زہر کا پیالہ پینے سے سقراط تو مر جاتا ہے، سوال ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتا ہے۔ سڑک پہ گھسیٹنے سے خراشیں قرۃ العین طاہرہ کے جسم پر پڑتی ہیں، مگر سوال صفحۂ زمین پر گہرے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ ہر عہد میں سوال کی روایت کو ایسا کوئی عنوان ضرور دیا گیا جو جرم کے احساس کو پختہ کر دیتا ہو۔ جس عہدِ ناپائیدار میں ہم جی رہے ہیں وہاں اسے منفی رپورٹنگ کا عنوان دیا گیا ہے۔ جس سوال سے مفادات پر زد نہ پڑتی ہو، مثبت رپورٹنگ ہے۔ جس سوال میں مراعات کے روزنامچے کی طرف اشارہ ہو وہ منفی رپورٹنگ ہے۔ 

ہماری روشن تاریخ میں جب کبھی جس کسی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، قصور ان کا ایک ہی نکلا: مثبت رپورٹنگ نہیں کرتے تھے۔ طے شدہ امور کو چھیڑنے کی جسارت کرتے تھے اور فکر کے ٹھہرے ہوئے پانی میں شعور کا کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کرتے تھے۔ کبھی چراغِ رخِ زیبا لے کر تاریخ کی شاہراہوں پر الٹے قدموں چل کر کچھ بولتے مناظر بھی دیکھنا چاہیے۔

ان تمام عبقریوں پر سے گزر جائیں جن کی ساری عمر مثبت رپورٹنگ میں کھپ گئی۔ گمنامی کے صحراؤں میں پڑی ان کی یادگاروں پر دھول اڑتی نظر آئے گی۔ منفی رپورٹنگ کرنے والوں کے لہو سے زمانہ اپنے چراغ روشن کرتا نظر آئے گا۔ اگلے زمانے کے شعورِ عام نے ہمیشہ اُسی بات پر اتفاق کیا ہے جو بات پچھلے زمانے میں منفی رپورٹنگ کہلائی ہے۔ یہ جو آج کا مثبت ہے، یہ گئے وقتوں میں بہت منفی ہوا کرتا تھا۔ ابوالفتح عبدالرحمٰن منصور الخزینی کا نام اپنے عہد کے فقیہانِ بے توفیق اور محتسبوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ آج ان کے نام سے ہم نے قائد اعظم یونیورسٹی کا شعبہ طبیعیات منسوب کر دیا ہے۔

اسی شعبے پر لگی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام کی تختی ہم نے اس لیے اکھیڑ دی ہے کہ معاشرے میں ان کا فکری مقام وہی ہے جو کبھی الخزینی کا تھا۔ زمانہ آئے گا کہ ہماری اگلی نسل ڈاکٹر عبدالسلام کا مجسمہ شہر کے بیچ کسی چوراہے پر نصب کر رہی ہو گی۔ شاید کہ تب کسی ایسے  شخص کے مجسمے کو بارود سے اڑایا بھی جا رہا ہو گا جو اپنے وقت کا عبدالسلام ہو گا۔ سوال کا گھیراؤ کرنے جیسے مشکل کاموں میں ہم جان جھونک دیتے ہیں، آسان سا ایک کام کیوں نہیں کر لیتے۔ سوال سن کیوں نہیں لیتے؟

 سوال کبھی پھانسی اور سنگساری سے تو نہیں مرتا۔ سوال تو بلکہ کبھی بھی نہیں مرتا۔ وہ مطمئن ہو کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ تو جاتا ہے، مرتا کبھی بھی نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ بندشوں کا کوئی شاہی پروانہ اسے مطمئن نہیں کر سکتا۔ جواب کے علاوہ کوئی طاقت نہیں جو اس کے اطمینان کا سامان کر سکے۔ جواب نہ ملے تو وہ بے اطمینانی کی سیاہ چادر اوڑھ کر گلیوں محلوں صحراؤں اور پہاڑوں میں نکل جاتا ہے۔ گزرتا جاتا ہے اور بے چینی کے تازہ بیج پھینکتا چلا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جواب بروقت مل جائے تو بے چینی کا تخم مر جاتا ہے۔ جواب نہ ملے تو سوال کا بویا ہوا بےچینی کا بیج زمین کا سینہ پھاڑنے لگتا ہے۔ 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطے میں ایک سوال نے ہی تو سر اٹھایا تھا۔ ہم نے دو عشروں تک سب کر لیا، سوال کا جواب نہیں دیا۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے سوالیوں پر قہر برسا تو سوال نے بےچینی کا دائرہ اور بھی بڑھا دیا۔ سوال کو ہراساں کرنے سے ہمیں کیا ملا، انجامِ کار ہمارے ہی عمارت کی بالائی منزل خلیجِ بنگال میں جا گری۔      

ہماری موجودہ سیاست میں کراچی جیسے شہر کی نمائندگی بالکل صفر پر کھڑی ہے۔ جن کا شہر ہے وہ حق نہیں جتلا سکتے۔ جن کا حق نہیں وہ شہر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ ایسے کیسے چلے گا؟ یہ ایک سوال ہے جو بے چینی بڑھا رہا ہے۔ ہم مگر جواب نہیں دے رہے، بس ایک دکھ ہے جو مسلسل دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں کی پر اسراریت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ چائے خانوں میں بیٹھے مسافر سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں۔ ریگزاروں سے گزرتے ہوئے قافلے اپنے ہی سائے سے ڈر جاتے ہیں۔ آنکھوں میں ویرانیاں ہیں اور زلفوں کو پریشانی لاحق ہے۔

اس پوری صورتِ حال کو سمیٹا جائے تو کُل ملا کے بات یہ بنتی ہے کہ سوال گوادر کے ساحلوں پر پیاسا بیٹھا ہے۔ فاٹا اور ملحقہ علاقوں کے باسی اپنے وطن میں اجنبیت کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ شہر کے کوتوال کو دیکھتے ہیں تو سہم کر دیوار سے لگ جاتے ہیں۔ سورج وہاں روز مایوسیوں کا گواہ بن کر خون آلود پہاڑوں کی اوٹ میں اتر جاتا ہے اور دم سادھا ہوا چاند آسیب زدہ وادیوں میں دبے پاوں اترتا ہے۔ بانسری کے سُر خطا ہیں اور طبلہ درد کی دھنیں بکھیر رہا ہے۔

یہ ماحول بتاتا ہے کہ ہمارے در وبام پر کہیں سوال بے چینی کی بکل مارے بیٹھا ہے۔ یہ سوال کوئٹہ پریس کلب کے دروازے پر ملا تو ہم حال احوال کیے بغیر ہی گزر گئے۔ یہی سوال کبھی پشاور میں کہیں ملا تو ہم نے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔ کیا ہوا؟ کچھ نہیں ہوا، بس سوال نے بے چینی کا دائرہ اک ذرا اور بڑھا دیا۔ یعنی

تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالتِ دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی

اٹلی کے چرچ میں لگی عدالت میں پادری نے گلیلیو سے کہا، ’منفی رپورٹنگ سے باز آ جاؤ ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔‘

گلیلیو نے چرچ سے نکلتے نکلتے ہوئے کہا، ’قتل کرنا ہی مسئلے کا اگر حل ہے تو ٹھیک ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ سوچنے کی بات بس یہ ہے کہ میرے مر جانے سے زمین حرکت کرنا چھوڑ دے گی کیا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ