مظفر آباد: محکمہ صحت، تعلیم، بنک اور دفاتر میں خواتین عدم تحفظ کا شکار

پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ سال پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جنسی ہراسانی کے کل چار واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے دوران ملازمت ہراساں کیے جانے کا صرف ایک واقعہ شامل ہے۔ 

مظفرآباد پولیس کے ایک عہدیدار وجاہت کاظمی کے مطابق اگرچہ خواتین کو دوران ملازمت ہراساں کیے جانے کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر بہت کم خواتین ان قوانین کے بارے میں جانتی ہیں یا انہیں استعمال کرتی ہیں۔(پکسابے)

مظفرآباد کی رہائشی چوبیس سالہ ماریہ سلطانہ (فرضی نام) کو ہمیشہ سے بنک میں ملازمت کا شوق تھا اور وہ اپنے والد کی طرح ایک کامیاب بینکار بننا چاہتی تھیں۔ اسی لیے انہوں نے والدین کے نہ چاہتے ہوئے بھی طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بجائے بینکاری پڑھنے کا فیصلہ کیا۔

ایم بی اے مکمل کرتے ہی والد کے تعلقات کی بنا پر ماریہ کو مظفرآباد کےایک بڑے نجی بنک میں پہلے انٹرن شپ اور کچھ عرصے بعد کسٹمر ریلیشن آفیسر کی نوکری بھی مل گئی مگر ماریہ یہ نوکری چھ ماہ تک ہی کر پائیں اور پھر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ وجہ ان کے بقول ’مرد افسران کا غیر مناسب رویہ‘ تھی۔

جس بنک سے انہوں نے استعفیٰ دیا اگرچہ وہاں اب بھی کئی خواتین ملازمت کرتی ہیں مگر ماریہ کے بقول ’وہ ایک سمجھوتے کی زندگی گزار رہی ہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔‘

ماریہ کے اس دعوے کی تصدیق ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ ان کے سنیئر افسران کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ان واقعات سے بھی ہوتی ہے جو اکثر مقامی میڈیا میں تو رپورٹ ہوتے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر ان میں سے بہت کم واقعات پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق گذشتہ سال پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جنسی ہراسانی کے کل چار واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے دوران ملازمت ہراساں کیے جانے کا صرف ایک واقعہ شامل ہے۔  پولیس کے بقول ان واقعات میں چار افراد کو گرفتار بھی کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات زیر کار ہیں۔

محکمہ صحت کی لیک ہونے والی چند دستاویزات کے مطابق مظفرآباد کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے سربراہ کے خلاف ماتحت خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کی تحقیقات ہو رہی ہیں مگر یہ تمام شکایات گمنام طور پر درج کروائی گئی ہیں اور ابھی تک کسی خاتون ملازم نے سامنے آ کر ان واقعات کے خلاف شکایت نہیں کی۔

حالیہ دنوں ایک مقامی اخبار کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ محکمہ تعلیم میں تعینات خواتین اساتذہ کو بھی محکمہ کے کچھ افسران کی جانب سے ہراساں کیا گیا ہے تاہم حکام نے جلد ہی تردید کر دی کہ وہ اس طرح کے کسی واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

چند ماہ قبل اسی شہر میں پولیس نے ایک نجی بنک کے اعلیٰ افسر کو اسی بنک کی خاتون افسر کے ساتھ ’نازیبا حالت‘ میں گرفتار کیا اور اسی دوران اس افسر کے موبائل سے برآمد ہونے والی چند ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں اس افسر کو مختلف خواتین کے ساتھ برہنہ حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے بتایا کہ اس گرفتار شخص کے موبائل سے ایسی کم از کم آٹھ ویڈیوز برآمد ہوئیں اگلے چند روز میں یہ ویڈیوز مختلف سوشل میڈیا گروپوں میں شئیر ہوئیں تو اور ان میں سے  ایک خاتون نے خودکشی کر لی تھی۔

حکام کے مطابق یہ ویڈیوز لیک کرنے کے الزام میں کم از کم چھ پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا۔

اگرچہ گرفتار بنک افسر اور اس کی ماتحت خاتون ابھی تک پولیس حراست میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے، تاہم پولیس کو خدشہ ہے کہ ’ناکافی ثبوتوں‘ کی بنیاد پر یہ شخص چھوٹ جائے گا۔ البتہ جس خاتون نے خودکشی کی اس کا مقدمہ بھی ایک دوسرے ضلع میں اسی شخص کے خلاف درج ہے۔

اس شخص کی گرفتاری سے قبل پولیس کو ایک گمنام خط موصول ہواتھا۔ اس خط میں خود کو اسی بنک کی ملازم ظاہر کرنے والی خاتون نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر الزام لگایا تھا کہ یہ عہدیدار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے خواتین ملازمین کو مستقل نوکریوں، ترقی اور من پسند جگہ پر تعیناتی کا لالچ دیکر انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے کوئی باقاعدہ شکایت یا درخواست موصول نہیں ہوئی اور گمنام خط کی بنیاد پر وہ صرف ’محدود پیمانے پر‘ ہی تحقیقات کر سکتے ہیں۔

ماریہ کہتی ہیں کہ انٹرن شپ کے دوران ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ملازمت کرنے کا ان کا فیصلہ درست نہیں۔ انٹرن شپ کے بعد باقاعدہ ملازمت شروع ہوتے ہی ان کا یہ احساس پختہ ہوتا چلا گیا۔ ’مجھے لگا کہ یہ ایک آسان نوکری ہے۔ سارے کام دفتر میں بیٹھ  کرکرنے ہیں اس لیے جگہ میری جیسی لڑکی کے لیے محفوظ ہو گی۔ مگر میرا خیال غلط تھا۔‘

ماریہ بتاتی ہیں کہ ملازمت کے دوران ان کے سپروائزر انہیں ان کے ڈیسک کے بجائے زیادہ وقت اپنے کیبن میں بٹھائے رکھتے۔ ’میرا خیال تھا کہ وہ مجھے سکھانا چاہ رہے ہیں۔ مگر وہ زیادہ تر غیر متعلقہ موضوعات پر باتیں کرتے رہتے۔ پہلے پہل وہ میری  تعلیم، ذاتی زندگی اور مستقبل کے ارادوں پر بات کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ انہوں نے میرے لباس اور پسند ناپسند پر بات کرنا شروع کر دی۔ اکثر وہ کیبن میں چائے وغیرہ منگوا لیتے۔ پھر ایک مرتبہ انہوں نے باہر جا کر لنچ کرنے کی دعوت دی۔‘

’کبھی کوئی کلائنٹ ان کے دفتر میں آتا تو وہ مجھ فون کر کے کیبن میں بلا لیتے اور کافی دیر تک وہاں بٹھائے رکھتے۔ کئی کلائنٹ تو بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے۔ ایک آدھ مرتبہ میں نے اس پر احتجاج کیا تو سپروائزر نے کہا نوکری کرنی ہے تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا۔‘

ماریہ کہتی ہیں کہ بڑے افسران کئی مرتبہ ’بڑے کلائنٹس‘ کے ساتھ میٹنگ کے لیے انہیں کلائنٹس کے دفاتر بھیج دیتے۔ ایک مرتبہ ایک کلائنٹ اکاونٹ کھولنے آیا تو اس کے پاس کچھ دستاویزات کم تھیں۔ ’مینجر نے مجھے کہا کہ آپ ساتھ جا کر ان کے دفتر سے لے آو۔ میں نے منع کیا تو منیجر نے مجھے کہا کہ یہ بڑی پارٹی ہے۔ ہر مہینے ہمیں کروڑوں کا بزنس ملے گا۔ یہ پارٹی ہاتھ سے نہیں جانی چاہیے۔‘

’مجھے یہ سب غیر مناسب لگا۔ میں اعلیٰ افسر کے پاس شکایت لے کر گئی تو وہ کوئی کارروائی کرنے کے بجائے مجھے ہی کہنے لگے کہ اگر بات کروڑوں کے کاروبار کی ہو تو تھوڑا بہت سمجھوتا کرنا ہی پڑتا ہے۔‘

تو کیا ماریہ نے ان واقعات کے خلاف آواز اٹھائی یا پولیس کو شکایت کی؟ اس سوال کے جواب میں ماریہ کا کہنا تھا کہ ان الزامات کو ثابت کرنا انتہائی مشکل عمل ہے اور اس عمل میں خواتین کی ’رہی سہی عزت‘ بھی چلی جاتی ہے۔ ’اس لیے میں نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے نوکری چھوڑنا ہی مناسب سمجھا۔‘

مظفرآباد پولیس کے ایک عہدیدار وجاہت کاظمی کے مطابق اگرچہ خواتین کو دوران ملازمت ہراساں کیے جانے کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر بہت کم خواتین ان قوانین کے بارے میں جانتی ہیں یا انہیں استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ایک وجہ تو خواتین کو ان قوانین کا علم نہ ہونا ہے جب کہ دوسری وجہ اس قانون کے تحت کسی کو سزا دلوانے کے لیے جرم ثابت کرنے کا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ شہادتوں اور ثبوتوں کی فراہمی اتنا مشکل اور پیچیدہ مرحلہ ہے کہ بہت ساری خواتین اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ثابت نہیں کر پاتیں۔ ان قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔‘

خواتین کے تحفظ پر کام کرنے والے وکیل عرفان صابر کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے نام سے قانون موجود ہے تاہم کوئی باقاعدہ کمیشن یا ادارہ موجود نہیں جہاں ملازمت پیشہ خواتین اپنی شکایات درج کروا سکیں۔ انہیں یا تو اپنے محکمے کے اندر اعلیٰ افسران سے شکایت کرنا ہوتی ہے یا پھر پولیس کے پاس جانا پڑتا ہے۔ افسران محکمانہ انکوائری کے نام پر معاملے کو کسی نہ کسی طرح رفع دفع کر دیتے ہیں اور عدالتوں میں اس نوعیت کے کیسز کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیس ذرائع کے مطابق گذشتہ عرصے میں محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف اس کی ماتحت خاتون نے شکایت درج کروائی مگر دوسرے روز ہی اس نے درخواست واپس لے لی۔ اب اس طرح کی صورتحال میں پولیس بھی اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔

صحافی فائزہ گیلانی اس حوالے سے کہتی ہیں کہ اگرچہ محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور دیگر بہت سے ادارے جہاں خواتین کام کرتی ہیں وہاں اس نوعیت کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں اور ان میں سے کچھ واقعات میڈیا میں رپورٹ بھی ہوتے ہیں مگران معاملات کو پولیس تک نہیں پہنچایا جاتا۔ کئی مرتبہ تو اعلیٰ افسران محکمانہ انکوائری کے ذریعےحل کرنے کا کہہ کر دبا لیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ متاثرہ خواتین کو ڈرا دھمکا کر یا سمجھا بجھا کر شکایت واپس لینے پر مجبور کرتے ہیں۔

کئی خواتین کو تو دور دراز تبادلے، نوکری سے فارغ کرنے یا کسی محکمانہ انکوائری میں الجھانے کے نام پر ڈرا کر خاموش کروایا جاتا ہے اور وہ خواتین کسی ممکنہ نقصان کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان