جنوبی وزیرستان کے قبائلی 19 دن سے دھرنا کیوں دیے ہوئے ہیں؟

محسود قبائلیوں نے27 جنوری کو ’یوماسید‘ کے نام سے ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان کے دفتر کے باہر جس دھرنے کا ابتدا کیا تھا وہ 19 روز گزرنے کے باوجود جوں کا توں جاری ہے۔

دھرنے میں شامل مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ انہیں تباہ حال  گھروں کا معقول معاوضہ ادا کیا جائے (ملک رمضان)

جنوبی وزیرستان میں پاکستان فوج کے آپریشن راہ نجات کے نتیجے میں انفراسٹرکچر کی مبینہ بربادی کے خلاف محسود قبائلیوں نے 27 جنوری کو ’یوماسید‘ کے نام سے ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان کے دفتر کے باہر جس دھرنے کا ابتدا کیا تھا وہ 19 روز گزرنے کے باوجود جوں کا توں جاری ہے۔

اب تک اس دھرنے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللہ بابر، جمعیت علمائے اسلام (جے یو ایف) کے جمال الدین، عوامی نیشنل پارٹ (اے این پی) کے جنرل سیکریٹری سردار حسین بابک، سماجی کارکن عائشہ گلالئی، پشتون تحفظ موومنٹ کے علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت مختلف سیاسی و سماجی شخصیات شرکت کر چکی ہیں اور انہوں نے مظاہرین کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے اس کے حل پر زور دیا ہے۔

یوماسید دھرنا کے ترجمان حیات پریغل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں 2009-2008 میں ہوئے آپریشن راہ نجات کو دھرنے کی وجہ قرار دیتےہوئے بتایا کہ آپریشن کے دوران بمباری اور گولہ باری کی وجہ سے تقریباً 87 ہزار سے زائد مکان جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ ’جنگ کے دوران محسود قبائل کا سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ مکین، لدھا، سراروغہ، تیارزہ،  سمیت مختلف علاقوں کے بازار تک بلڈوز کر دیے گئے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ جنگ کے آٹھ سال بعد حکومت نے نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے فیز ایک، دو، تین اور چار میں سروے کے لیے ایک میجر، ایک استاد، ایک تحصیل دار، انجینیئر اور ایک حکومتی پے رول پر کام کرنے والا ملک (علاقائی سربراہ) کو مقرر کیا تھا لیکن جب سروے میں بےضابطگیوں کے خلاف محسود قبائل نے آواز اٹھائی تو کہا گیا کہ سروے صحیح نہیں۔

’اب سروے قبائلیوں نے خود تو نہیں کیا تھا بلکہ حکومت کی جانب سے منتخب کردہ متذکرہ بالا افسران و نمائندگان نے کیا جو اب پروموشن پا چکے ہیں، تو اس میں عوام کا کیا قصور کہ ابھی تک انہیں اپنا حق نہیں مل رہا۔‘

حیات پریغل کے مطابق حکومت نے مکمل تباہ شدہ مکانات کے لیے چار چار لاکھ روپے جبکہ معمولی تباہ ہونے والے مکانوں کے لیے ایک لاکھ 60 ہزار روپے تخمینہ لگایا جو انتہائی نامناسب ہے۔ ’چونکہ وزیرستان میں مکانات کی تعمیرات کے لیے استعمال ہونے والا سامان دستیاب نہیں لہٰذا ڈیرہ اسماعیل خان یا ٹانک سے میٹیریل خریدا جاتا ہے جو انتہائی مہنگا اور محنت طلب کام ہے۔

’مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ جو مکانات سروے میں چھوڑ دیے گئے انہیں شامل کیا جائے اور باقی جتنے بھی سروے منسوخ ہوئے ان کو بحال کرتے ہوئے مثاترین کو مناسب معاوضہ فی الفور ادا کیا جائے تاکہ وہ اپنے مکان بنا کر دوبارہ ان میں آباد ہو سکیں۔‘

حال ہی میں تحصیل کا درجہ پانے والے جنوبی وزیرستان کے علاقے شکتوئی میں تقریباً پانچ سے زائد گاؤں سمل، گوبڑ، کڑاشتی، شیرانہ، اور سرخورائی وغیرہ میں 2017 میں فوجی آپریشن کیا گیا تھا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود بھی یہاں کے مکینوں کو آئی ڈی پیز کا درجہ تک نہیں دیا گیا۔ ڈھائی ہزار سے زائد خاندان ایسے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

یوماسید دھرنے میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں محسود قبائلی شرکت کر کےاپنے حقوق اور جلد از جلد گھر واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پر عمل نہیں ہوتا تب تک دھرنا جاری رہے گا۔

مقامی صحافی شاکر خان محسود نے بتایا کہ محسود قبائل نے کئی بار حکام بالا سے مذاکرات کی کوشش کی مگر سول انتظامیہ نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے، جس کے بعد 2019 میں محسود نوجوانوں نے 22 دن تک ضلع ٹانک میں دھرنا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ آخر کار حکومتی اہلکاروں نے مذاکرات کر کے مظاہرین کے مسائل حل کرنے کے لیے تحریری معاہدہ کیا، لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

شاکر محسود نے دعویٰ کیا کہ سروے میں کرپشن اور ناانصافی دیکھنے کو ملی جس کے بعد محسود نوجوانوں نے علاقائی مشیران کے ساتھ مل کر دوبارہ 27 جنوری کو ضلع ٹانک میں واقع ڈی سی دفتر جنوبی وزیرستان کے سامنے تاریخی جلوس نکالتے ہوئے ایف سی گراؤنڈ میں دھرنے کا اہتمام کیا۔ 

سول انتظامیہ نے دھرنے کا اعلان سنتے ہی کام میں تیزی کر دی اور مشیران کی مدد سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ نکلے۔ آخر کار 15 رکنی کمیٹی اسلام آباد گئی اور وفاقی وزیر مراد سعید سے ملاقات کی مگر وہاں بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی جس کے باعث آج دھرنے کو19 روز ہو چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس معاملے پر سول انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے ڈپٹی کمشنر ساؤتھ وزیرستان حمید اللہ خٹک سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان