بیمار ایرانی شہریوں کے لیے دوائیں نایاب کیوں ہوگئیں؟

’پہلے آپ ایک فارمیسی جاتے تھے تو آپ کو انسولین مل جاتی تھی لیکن اب آپ کو ہزاروں جگہ جانا پڑتا ہے‘: ایرانی شہری پرویز صادقی

49 سالہ ایرانی شہری پرویز صادقی ذیابیطس کے مریض ہیں اور اپنے چہرے پر موجود جھریوں اور دھنسی ہوئی آنکھوں کے باعث 70 سال کے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کا وجود ملک میں موجود شدید طبی بحران کا ایک ثبوت ہے۔

تہران کی ایک فارمیسی میں چھ گھنٹے کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد وہ انسولین حاصل کرنے پر مطمئن نظر آتے ہیں۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے باعث انسولین ایک نایاب شے بن چکی ہے۔

پرویز صادقی کہتے ہیں: ’میں دس سال سے ذیابیطس کا مریض ہوں۔‘ تہران کے مغرب میں واقع علاقے کرج کے رہائشی پرویز ان دنوں بے روزگار ہیں۔

وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتے ہیں: ’پہلے آپ ایک فارمیسی جاتے تھے تو آپ کو انسولین مل جاتی تھی لیکن اب آپ کو ہزاروں جگہ جانا پڑتا ہے۔‘

پرویز کو انسولین کی تلاش میں ایک ہفتہ لگا ہے اور انہیں اس کے لیے کئی میڈیکل سٹوروں کا چکر لگانا پڑا ہے۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق: وسطی شہر قُم میں کرونا وائرس کے کیس سامنے آنے سے پہلے ہی ایرانیوں کو ادویات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ کرونا کے باعث ایران میں کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور ماسکس کی کمی کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران میں ادوایات کی کمی اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ نے 2018 میں ایران کے ساتھ کیے جانے والے تاریخی جوہری معاہدے سے یک طرفہ عیلحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سے سخت پابندیاں عائد کر دیں۔

امریکہ کی جانب سے انسانی بنیادوں پر ادویات اور طبی سامان کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے لیکن ادویات کی عالمی خریداری بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہے جو ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ وہ بھی پابندیوں کا نشانہ بننے کے خدشات کا شکار ہیں۔

اسی وجہ سے پہلے سے ہی کم دستیاب ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پابندیوں کے باعث ایرانی کرنسی تیزی سے قدر کھو رہی ہے۔

پرویز صادقی کہتے ہیں: ’تین سال پہلے میں انسولین 17 ہزار تومان (1.10 ڈالر) میں خریدتا تھا جو کہ اب 50 ہزار پانچ سو تومان میں دستیاب ہے اور یہ دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ انشورنس میں شامل ہے اس لیے مجھے کئی جگہ جانا پڑا تاکہ اس کی منظوری لی جا سکے۔ انہوں نے منظوری دے دی لیکن اس میں کافی وقت لگ گیا اور آپ کو بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔‘

پرویز صادقی اپنی انسولین ختم ہونے کے بعد دوسرے مریضوں سے ’ادھار‘ پر انسولین لیتے ہیں تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔

انہیں ایسی فارمیسی کی تلاش میں بھی مشکل پیش آتی ہے جو سوئی والی سرنج فروخت کرتی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں ہمیں سوئی خریدنے کے لیے پیسے دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔‘

میڈیکل سٹوروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ

وزارت صحت کے ترجمان قیانوش جہان پور نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اپنی 97 فیصد ادویات خود تیار کرتے ہیں۔ صرف تین فیصد ادویات ہمیں باہر سے منگوانی پڑتی ہیں جو کہ نئی اور مہنگی ٹیکنالوجی سے تیار ہوتی ہیں یا ایسی ادویات جو بہت کم استعمال ہوتی ہیں اور انہیں ملک میں تیار کرنا معاشی اعتبار سے مناسب نہیں ہو گا۔‘

لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران کو ایک سال سے ’پیچیدہ اور خصوصی بیماریوں کے علاج کے لیے باہر سے ادویات منگوانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

تہران کے مرکز میں واقع ’13 عبان‘ ایک سرکاری فارمیسی ہے اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ یہاں مریضوں کو روزانہ گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں دی جانے والی ادویات سستی اور بڑی مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔

ایرانی دارالحکومت میں سرکاری طور پر چلائی جانے والی کئی فارمیسیز موجود ہیں۔

73 سالہ محمد امنیان جنہیں اپنی ذیابیطس کی متاثرہ اہلیہ کے لیے انسولین کی ضرورت ہے، وہ اس کی عدم دستیابی کا ذمہ دار امریکی پابندیوں کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ’حکومت کوشش کر رہی ہے کہ چیزوں کو بہتر کیا جاسکے لیکن اس کے باوجود مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ بہتر ہوتا کہ وہ امریکہ سے مذاکرات کرتے۔‘

جبکہ پرویز صادقی اس کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہ حالات کو سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔ جن لوگوں کے پاس انشورنس نہیں ہے انہیں یہ مہنگی قیمت پر خریدنی پڑتی ہے۔ وہ یہ رقم ادا کریں یا مر جائیں۔‘

تہران یونیورسٹی کے میڈیکل سائنس شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد رضاعی کا کہنا ہے کہ ’انسولین پابندیوں کی شکار ادویات میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے انسولین اور باقی ادویات کے ذخیرے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔‘

ذیابیطس کے علاوہ تھیلیسیمیا کے مریض بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایران میں تھیلیسیمیا کی بیماری عام ہے۔

حال ہی میں جینیاتی مسائل کی شکار ایک نوجوان خاتون اپنی متاثرہ جلد کے لیے خصوصی مرہم نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوگئیں۔

سمگلنگ

شہرزاد شعبانی تہران میں ایک نجی میڈیکل سٹور کی مالک ہیں۔ وہ نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی ادویات سے متعلق ایک اور شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دو سو گولیوں کا نسخہ لانے والا شخص صرف 100 یا 200 گولیاں ہی حاصل کر سکتا ہے اور اب ایسا ہونا معمول بن چکا ہے۔‘

ایک اور دوا جو آج کل ملنا مشکل ہے، وہ ڈیپاکائن ہے جو کہ فرانس میں تیار ہوتی ہے اور مرگی کے مریضوں کے زیر استعمال رہتی ہے۔

ایران عراق جنگ میں حصہ لینے والے 50 سالہ محمد بھی ایسے ہی مریضوں میں سے ایک ہیں۔ وہ بے چینی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔

وہ عام طور پر اس کے لیے مقامی سطح پر تیار کردہ ادویات استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ادویات معدے کی خرابی اور جلن کا باعث بنتی ہیں اور یہ میری حالت بھی بہتر نہیں کرتیں۔‘

شہرزاد شعبانی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’معیار بدقسمتی سے ایک مسئلہ ہے لیکن آپ سرکاری طور پر اس پر بات نہیں کر سکتے۔ ہر کمپنی کا معیار الگ ہے کیونکہ سب کا فارمولا الگ الگ ہے۔‘

شہرزاد شعبانی کا کہنا ہے کہ رعشہ کی بیماری کے شکار افراد بعض اوقات ترکی کے راستے آنے والی سمگل شدہ ادویات بھی خریدتے ہیں کیونکہ ان کا معیار کچھ بہتر ہوتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے ساتھ انسانی بنیادوں پر کھولے جانے والے ایک نئی معاشی چینل کے ذریعے آنے والی ادویات سے بھی کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا۔

تاہم کچھ میڈیکل سٹوروں پر ادویات کو بلیک مارکیٹ کی قیمتوں پر فروخت کیا جا رہا ہے جو کہ کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کے شکار ایرانیوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت