’پی ایس ایل میری مٹی سے بنی پچوں پر ہو رہی ہے‘

ماضی میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ محمد صادق تقریباً 13،14 سال سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں پچز کے لیے موزوں مٹی فراہم کر رہے ہیں۔

کسی دوسرے کھیل کی نسبت کرکٹ میں پچ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیمیں میچ سے قبل پچ کا بغور معائنہ کرنے کے بعد حتمی حکمت عملی اور پلیئنگ الیون کا انتخاب کرتی ہیں۔

ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے لیے بیٹنگ پچیں بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاکہ زیادہ چوکے، چھکوں کی مدد سے بڑے سکور سجیں اور تماشائیوں کو کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں۔

یہ بولنگ پچ ہے، وہ بیٹنگ وکٹ ہے، یہ فاسٹ ہے، سلو ہے وغیرہ وغیرہ جیسے تبصرے تو سابق کھلاڑی ٹی وی پر کرتے ہیں مگر ان کو بنانا کیوریٹر کا کام ہے لیکن کیوریٹر کو اپنی مہارت دکھانے کے لیے خاص قسم کی مٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے اکثر انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیمز میں پچوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی یہ ’خاص مٹی‘ پاکستان سے جاتی ہے۔

اس خاص قسم کی مٹی کے لیے پاکستان کے ضلع گوجرانوالہ کے محمد صادق سے رابطہ کیا جاتا ہے۔

ماضی میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ محمد صادق تقریباً 13،14 سال سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں پچز کے لیے موزوں مٹی فراہم کر رہے ہیں۔

محمد صادق نے بتایا کہ پی ایس ایل سیزن فائیو کے میچوں کے لیے ان کی فراہم کردہ مٹی سے پچیں بنیں ہیں، جس پر وہ بہت خوش ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے واضح کیا کہ وہ صرف پی سی بی کو مٹی فراہم کرتے ہیں اور بیرون ملک، لوکل، پرائیویٹ سطح پر کم دیتے ہیں۔

گوجرانوالہ سے قبل پنجاب کے ہی ایک اور علاقے نندی پور کی مٹی انگلینڈ، ملیشیا، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور آسٹریلیا میں کرکٹ پچز بنانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

تاہم محمد صادق نے بتایا کہ جب نندی پور کی مٹی میں کلے کی شرح کم ہونا شروع ہوئی تو پی سی بی نے انہیں کہا کہ وہ پچ کے لیے مٹی تلاش کریں۔

’میں نے تقریباً ایک ماہ کی جدوجہد کے بعد علاقہ ونڈالہ سندیلہ سے مٹی کا ایک نمونہ بھیجا جو زرعی لیبارٹری سے ٹیسٹ میں پچ تیار کرنے کے لیے موزوں نکلا۔

’اس مٹی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کلے کی شرح 66 فیصد، ریت چار فیصد، پی ایچ 8۔ 7 فی صد اور نمک 0.7 فیصد ہے۔ اس طرح معیار کے مطابق ہونے کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسے منظور کیا اور میں نے 2007 کے بعد اس مٹی کی سپلائی شروع کر دی۔‘

صادق کے مطابق 2007،2008 میں آئی سی سی  کے ٹونی ہیومین ان سے ملنے آئے اور واپسی پر مٹی کے نمونے ساتھ لے گئے، جو ٹیسٹ میں پاس ہوئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ مٹی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے مختلف علاقوں میں مٹی کے نمونے دیکھتے رہتے ہیں تاکہ موجودہ جگہ پر مٹی ختم ہونے کے بعد دوسری جگہ سے کھدائی شروع ہو سکے۔

’مطلوبہ معیار کی مٹی ملنے پر اس زمین کو ٹھیکے پر لے لیتا ہوں اور پھر وہاں سے مٹی نکال کر پراسس کرتے ہیں۔‘

محمد صادق کے مطابق ’مشین روٹیویٹر کے ذریعے مٹی کو باریک کرنے کے بعد اسے گودام میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ پھر ایکسپورٹ ہونے والی مٹی کو کیمکل لگا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ مٹی زیادہ مہنگی نہیں، ٹن کے حساب سے کم از کم 1500 سے لے کر 2000 تک ریٹ ہوتا ہے۔

’بیرون ملک ایکسپورٹ کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ اس کے ریٹ بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ایک ٹرک کی قیمت 10 سے 15 ہزار کے قریب ہوتی ہے۔‘

’میری مٹی دبئی، شارجہ، ابوظہبی جنوبی افریقہ اور سری لنکا جاتی ہے۔ یورپ میں جو مٹی استعمال ہوتی ہے وہ ان کی اپنی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ایشیا خاص کر پاکستان اور یو اے ای گرم ملک ہونے کی وجہ سے اس مٹی کو استعمال کرتے ہیں۔ اس مٹی سے جو پچ تیار ہوتی ہے اس پر پانی کا ٹھہراؤ کم از کم چار گھنٹے تک رہتا ہے۔‘

اسی بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے دیکھیے ہماری یوٹیوب ویڈیو:

 

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا