پشاور میں 15 ہزار سکھوں کے لیے ایک بھی شمشان گھاٹ نہیں

سماجی کارکن گورپال سنگھ  کے مطابق  جب بھی برادری میں فوتگی ہوتی ہے تو آخری رسومات کے لیے انہیں سو کلومیٹر دور اٹک جانا ہوتا ہے۔

3 جولائی کی اس تصویر میں  پشاور کی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رادیش سنگھ ٹونی عام انتخابات میں ووٹ حاسل کرنے کے لیے مہم چلاتے ہوئے۔ پشاور میں سکھوں کی آبادی 15 ہزار ہے (اے ایف پی)

پشاور میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 ہزار افراد دیہایوں سے آباد ہیں مگر جب بھی برادری میں کوئی مر جاتا ہے تو انہیں آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کوئی 100 کلومیٹر دور اٹک کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ پشاور میں ان کے لیے ایک بھی شمشان گھاٹ نہیں۔

شمشان گھاٹ لے جانے میں مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پشاور کے رہائشی اور سکھ کمیونٹی کے سماجی کارکن گورپال سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ 2018 کی بات ہے جب ہماری کمیونٹی میں ایک خاتون کی فوتگی ہوئی۔ اس دن توہین رسالت کے خلاف پشاور میں بڑا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ صبح جب ہم لاش کو اٹھا کر اٹک میں شمشان گھاٹ کے لیے نکلے تو روڈ کی بندش کی وجہ سے ہمیں کئی گھنٹے لگ گئے اور رات کے تقریباً 11 بجے ہم نے آخری رسومات مکمل کیں۔‘  

ان کا کہنا تھا کہ برادری میں کسی کی بھی فوتگی ہو جائے تو یہی صورت حال بن جاتی ہے کیونکہ پشاور میں لاش کو سسکار (جلانے کی رسم) کرنے کے لیے کوئی بھی شمشان گھاٹ نہیں۔

گورپال سنگھ نے شمشان گھاٹ نہ ہونے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت منگل کو ہوئی اور عدالت نے حکومت کو آٹھ اپریل تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

گورپال سنگھ نے بتایا کہ پشاور میں 1947 سے پہلے تقریباً 200 شمشان گھاٹ تھے جہاں پر سکھ کمیونٹی کے لوگ اپنے پیاروں کا سسکار کرتے تھے لیکن اس کے بعد وہ شمشان گھاٹ یا تو حکومت کے قبضے میں چلے گئے یا پھر عام شہریوں نے قبضہ کر لیا۔

گورپال نے بتایا: ’اب پشاور میں 15 ہزار کے قریب سکھ کمیونٹی کے لوگوں کے لیے ایک بھی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔ ہمارے پیاروں کو اپنے شہر میں سسکار کرنے کے حق سے بھی محروم کیا گیا کیونکہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہی شہر میں دفنائے یا سسکار کیے جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گورپال نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی پچھلی دور حکومت میں آٹھ اضلاع میں شمشان گھاٹ بنانے کے لیے فنڈز مختص کیے گئے تھے لیکن ابھی تک اس کے لیے زمین نہیں خریدی گئی ہے۔

ان کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت سرکاری قیمت پر زمین خردینا چاہتی ہے جو مارکیٹ قمیت سے کم ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص سرکاری قیمت پر زمین دینے کو تیار نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا: ’حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی زمین پر سیکشن فور نافذ کر کے وہ زمین خریدیں لیکن شمشان گھاٹ کے لیے زمین  خریدنے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘

شمشان گھاٹ نہ ہونے کی وجہ سے گورپال سنگھ کے مطابق لاش کو اٹک پہنچانے پر بہت زیادہ خرچہ آتا ہے کیونکہ ایک تو لاش لے جانے کے لیے ایمبولینس کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ لواحقین کے لیے بھی گاڑی کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اٹک میں جو ششمان گھاٹ بنا ہے وہ بھی سرکاری نہیں ہے بلکہ سکھ برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے اور اس کا پورا خرچہ بھی برداشت کر رہی ہے جس میں چوکیدار کی تنخواہ سمیت لکڑی وغیرہ کا خرچہ ہوتا ہے۔

شمشان گھاٹ میں ہوتا کیا ہے؟

گورپال کے مطابق شمشان گھاٹ جناز گاہ کی طرز کی جگہ ہوتی ہے جس میں سکھ کمیونٹی والے اپنے پیاروں کو سسکار کرتے ہے جس میں جلانے کے لیے ایک خاص جگہ بنی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ساتھ میں لکڑی رکھنے کے لیے ایک چھوٹا کمرہ بنایا جاتا ہے۔ لکڑی لاش کو سسکار کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور ایک لاش کو جلانے کے لیے تقریباً ایک من لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے جو آج  کوئی چھ ہزار روپے تک میں ملتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے بھی جگہ ہوتی ہے جہاں لواحقین اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔

گوپال کے مطابق شمشان گھاٹ میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے پیاروں کو سسکار کر سکتے ہیں کیونکہ سسکار کرنے کا طریقہ تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔

پشاور شہر میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کا موقف جاننے کے لیے ان سے  رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی لیکن ان کی جانب سے جواب نہیں ملا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان