لو جی عورت مارچ ہو گیا

کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو خود کو خواتین کے حقوق کا حامی بتاتے ہیں لیکن جب پلے کارڈز کی باری آتی ہے تو وہ ان کے پیچھے چھپا مطلب بھی نہیں سمجھ پاتے۔

عورت مارچ کے بعد سوشل میڈیا پر جو بحث دیکھنے میں آئی اس سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ اس مارچ کو بس تنقید برائے تنقید کے تحت دیکھ رہے ہیں (تصویر۔ عورت مارچ سوشل اکاونٹ)

بالآخر عورت مارچ ہو گیا اور کیا ہی خوب ہوا۔ لاہور، کراچی، سکھر اور اسلام آباد میں عورت مارچ کی بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں جن میں ہزاروں خواتین، مردوں، خواجہ سراؤں اور مختلف اقلیتوں نے شرکت کی۔

عورت مارچ کی پہچان اس کے پلے کارڈز ہیں جو شرکا اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یہی پلے کارڈز اس مارچ پر تنقید کی وجہ بنتے ہیں۔ ان پلے کارڈز پر لکھے مسائل بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتے، جس کی جہاں تک پہنچ ہوتی ہے وہ ان پر تنقید کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہر مارچ پچھلے سے بڑھ کر ثابت ہو رہا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔

اس سال کا عورت مارچ پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ منظم تھا۔ حکومت نے بھی مارچ کو خاطر خواہ سکیورٹی فراہم کی لیکن اس سکیورٹی کا حال اسلام آباد میں اس وقت بےحال ہو گیا جب ہمارے بھائیوں نے عورت مارچ کے شرکا پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔ عورت مارچ والوں کو اپنی مانگیں مانگنے سے پہلے دس چیزوں کا ثبوت دینا پڑتا ہے لیکن ان بھائیوں کو حیا مارچ اور اس کے بعد پتھراؤ کا مظاہرہ کرنے اور کرنے کے بعد کچھ بھی نہیں ثابت کرنا پڑا۔ وہ کل بھی صراطِ مستقیم پر تھے اور آج بھی ہیں۔ ان پر سوال اٹھانا نہ صرف جرم ہے بلکہ گناہ بھی ہے۔

عورت مارچ کے پر امن شرکا پر پتھراؤ کر کے ہمارے بھائیوں نے ثابت کیا کہ انہیں صرف اپنی ماں، اپنی بہن، اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کی ہی عزت کرنا سکھائی گئی ہے بقایا عورتوں کو وہ شاید فاحشہ تصور کرتے ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ان کے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ یہ تاک تاک کر ایسی خواتین کو ڈھونڈتے ہیں اور انہیں اپنی تئیں 'دنیا کی سب سے بہترین عزت' دے کر گھر بیٹھنے کی 'درخواست' کرتے ہیں۔

پس آٹھ مارچ کو بھی ان بھائیوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے سڑک پر پڑے پتھر اور اینٹیں اٹھائیں اور عورت مارچ کے شرکا پر پھینکنا شروع کر دیں۔ اسلام آباد پولیس ان کے خلاف ایک محتاط ایف آئی آر درج کر چکی ہے جس میں اس پتھراؤ کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ اس کے لیے اسلام آباد پولیس الگ قسم کی تعریف کی مستحق ہے جو پھر کسی اور وقت سہی۔

عورت مارچ کے بعد سوشل میڈیا پر جو بحث دیکھنے میں آئی اس سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ اس مارچ کو بس تنقید برائے تنقید کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ ہماری ایک دوست سمیرا لوکھنڈوالا اپنے پلے کارڈ پر 'آئی ایم آن مائی پیریڈ اینڈ آئی ایم ناٹ ناپاک' لکھ کر لائی تھیں۔ سمیرا اپنی بہن کے ساتھ مل کر 'ہر پاکستان' نامی ایک ادارہ چلاتی ہیں جس کا مقصد بچیوں اور خواتین کو ماہواری اور اس کے دوران حفظانِ صحت پر آگاہی دینا ہے۔

ماہواری پاکستان میں ایک حساس موضوع ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 50 فیصد خواتین کو اپنے پہلے پیریڈ سے قبل ماہواری کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتیں۔ جن لوگوں کا پاکستان لاہور، کراچی اور اسلام آباد پر ختم نہیں ہوتا، انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ بڑے شہروں میں بھی بیشتر دکانوں اور سپر مارکیٹس میں پیڈ براؤن لفافے میں لپیٹ کر دیے جاتے ہیں۔ اب ایسے میں ایک جوان لڑکی اپنے پلے کارڈ پر پیریڈ کا لفظ لکھ لائے تو ملکی ثقافت کو جو دھچکا پہنچے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ایک ساتھی نے مجھے اس پلے کارڈ کی تصویر ان باکس کی اور پوچھا آپ اس فحاشی کی کیا تاویل دیں گی؟ میں نے اس تصویر کو ہر زاویے سے دیکھا، حتیٰ کہ موبائل الٹا کر کے بھی دیکھ لیا لیکن مجھے اس میں فحاشی نظر نہیں آئی۔ میں نے ان صاحب کو آنکھیں چیک کروانے کا مشورہ دیا۔

ہمارے ایک جاننے والے جماعتِ اسلامی کا میڈیا سیل چلاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر عورت مارچ کے فوٹوشاپ پلے کارڈز کی تصاویر اپ لوڈ کر کے فیمینسٹس کو للکارتے ہوئے پوچھا کہ یہ کون سے حقوق ہیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ اس معاشرے کا وہ گند ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ شکر کرو عورت مارچ کا کہ وہ اس گند کو معاشرے کے سامنے لے کر آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عورت مارچ کے منتظمین نے اس سال شرکا کو پہلے سے ہی ہدایات جاری کر دیں تھیں کہ وہ اپنے اپنے پلے کارڈ کی تصویر اپنے پاس محفوظ رکھیں تاکہ سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ تصاویر وائرل ہونے کی صورت میں اصل تصاویر اپ لوڈ کی جا سکیں۔

کسے پتہ تھا کہ اس کی جلد ہی ضرورت پیش آ جائے گی۔ صحافی منصور علی خان کی اہلیہ کے ہاتھوں میں پکڑے صفحات پر اپنا یہ گند لکھ کر سوشل میڈیا پر پھیلانے کی کوشش کی جو چند گھنٹے بھی نہ چل سکی۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ عورت مارچ کے بارے میں ایسے ایسے لوگوں نے بھی بیانات دیے جو مارچ کے بارے میں سوائے اس کے نام کے کچھ نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے نہ مارچ کا منشور پڑھا نہ اس کے منتظمین سے بات کرنا مناسب سمجھی بس کسی سینیٹر یا ملا کی تقریر سے جو کچھ سمجھا اس کی بنیاد پر اپنی رائے بنا لی اور پھر اس رائے کو عوام تک پہنچا دیا۔ اس سے بڑا جہالت کا مظاہرہ شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔

انہی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو خود کو خواتین کے حقوق کا حامی بتاتے ہیں لیکن جب پلے کارڈز کی باری آتی ہے تو وہ ان کے پیچھے چھپا مطلب بھی نہیں سمجھ پاتے۔ اپنا موزہ خود ڈھونڈ لو اور اپنا کھانا خود گرم کرو کا مطلب ان کے نزدیک موزہ ڈھونڈنے اور کھانا گرم کرنے تک ہی محدود ہے۔ عورت مارچ کو ایک کامیاب اور بڑی تحریک بنانے کے لیے اسے ان لوگوں سے بچانا ہوگا۔

اس سال عورت مارچ کے منتظمین نے میڈیا کے لیے واضح ہدایات جاری کیں اور شرکا کو بھی مختلف مشورے دیے گئے جو کافی سود مند رہے۔ ایسی کوششیں مستقبل میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سیاست دانوں اور میڈیا کو اس مارچ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا بند کرنا ہوگا، تب ہی ہم اس مارچ کے دور رس نتائج دیکھ سکیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ