ٹک ٹاکر، ان کے چاہنے والوں اور ان پر قاتلانہ حملے کرنے والوں کے رویے آج کل ہر جگہ زیرِ بحث ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے رویوں کو بیماری کے کھاتے میں ڈالتے ہیں، کچھ ان کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں تو کچھ ماں باپ کی تربیت کو نشانہ بناتے ہیں۔
وہ بھی ہیں جو ان رویوں کا ذمہ دار معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے چینی، معاشی ناآسودگی اور لاقانونیت کو قرار دیتے ہیں۔ ذہنی صحت کا معالج ہونے کے ناطے مجھ سے بھی بہت سے لوگوں نے اس موضوع پر بات کی ہے۔
پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ انسانیت کو درپیش کوئی نیا یا انوکھا مسئلہ نہیں ہے۔ چونکہ اب میڈیا اور سیلیبریٹیز کی تعریفیں بدل گئی ہیں، سو عوام کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ جب سوشل میڈیا نہیں تھا اور ٹک ٹاکرز کی بجائے فلمی ستاروں کا دور دورہ تھا تو فلمی اداکاراؤں کو بھی اس قسم کے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پھر وہ میرلن منرو ہوں یا ثریا و مدھوبالا، سب جذباتی فینز کی وجہ سے لازوال شہرت کا مزہ بھی چکھا کرتیں اور ان سے پریشان بھی ہوا کرتیں۔
یہاں والوں کی مائیں اور نانیاں تک ان کے سائے کی بھی حفاظت کرتی تھیں اور قانون بھی ان کو محفوظ رکھنے میں پیش پیش ہوتا تھا۔
پہلے تو یہ سمجھنا پڑے گا کہ عمومی طور پر ٹک ٹاکرز جو ویوز لینے کے لیے کئی مرتبہ عجیب حرکتیں کرتے اور فینز کو انگیج رکھنے کے لیے ان کو بھرپور ریسپانس بھی دیتے ہیں، اس رویے کے پیچھے زیادہ تر کوئی سخت نفسیاتی بیماری نہیں ہوتی۔
ایسا ہی حال ان کے چاہنے والوں یا نقصان پہنچانے والوں کا ہوتا ہے۔ ان کے رویوں کو بیماری کا لبادہ ہرگز نہیں اوڑھانا چاہیے۔
پھر وہ کیا عوامل ہیں کہ دہائیوں سے ایسے واقعات دنیا کے ہر خطے میں ہو رہے ہیں اور دنوں تک اخباروں اور میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں؟
یہاں آتے ہیں شخصیت کے عارضے اور محترم سگمنڈ فروئڈ کی طرف۔ بے چینی کم کرنے کے غیر موافق طریقوں سے جب وقتی سکون اور آسودگی ملتی ہے تو پھر وہ دھیرے دھیرے شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ عوامل سے مل کر بنتی ہیں بے تحاشا توجہ حاصل کرنے کی شوقین ٹک ٹاکرز کی شخصیتیں۔
ان کو زیادہ جانے بغیر حد سے زیادہ چاہنے والوں اور مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر نقصان پہنچانے والوں کی شخصیت میں بھی جذباتی پن اور فوری تسکین حاصل کرنے کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔ ان عوامل میں جب سوشل میڈیا استعمال کی تربیت کی کمی، معاشرے کی ابتر صورت حال اور لاقانونیت شامل ہوتی ہے تو ٹک ٹاکرز کے قتل اور اغوا جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔
ہسٹیریائی شخصیت کا خاصہ ہے کہ اس کا موڈ پل پل بدلے گا اور وہ ہمہ وقت توجہ کی طالب ہو گی۔ شخصیت کا یہ پہلو یا عارضہ مردوں کی نسبت خواتین میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لاشعور کے تنازعات شعور کو ہائی جیک کر ڈالتے ہیں تو کبھی پل میں آنکھ بھر آتی ہے تو کبھی نفسیاتی دورہ پڑ جاتا ہے۔
ایسی شخصیت کے مالک لوگوں کو ایکٹنگ، ماڈلنگ وغیرہ کے پروفیشن بہت راس آتے ہیں اور یہ سین میں جان ڈال دینے کے لیے مشہور ہو جاتے ہیں۔
ایکٹنگ اور ماڈلنگ کے بہرحال کچھ ضوابط ہوتے ہیں اور اک عدد ڈائریکٹر ان کے شخصیتی عوامل کا وہی پہلو منظرِ عام پر آنے دیتا ہے جو قابلِ قبول ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ عنصر ندارد ہے۔ کوئی فلٹر موجود ہی نہیں ہے۔ اینٹی سوشل شخصیت کے افراد کے لیے معاشرتی قوانین کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ جو دل میں آتا ہے کر گزرتے ہیں۔ ہر شے کو بس اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ کسی بھی فعل پر ندامت یا پشیمانی سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسی بھی تعلق میں سطحی اور ظاہری لگاؤ ان کا خاصہ ہوتا ہے۔ مرضی کے خلاف نتائج پر ان کو اگلے کی جان بھی لینی پڑ جائے تو افسوس نہیں کرتے۔ اس شخصیتی عارضے میں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں مردوں کی اجارہ داری ہوتی ہے اور قانون پر عمل کمزور ہوتا ہے وہاں ان کی شخصیت کے پہلو ان سے منسلک لوگوں کی زندگیوں پر بہت منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
توجہ کی طالب ٹک ٹاکر کسی تعمیراتی کام یا وڈیو کے بجائے ڈرامائی ٹک ٹاک بناتی ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کا شکار، ظاہری چارم کا لبادہ اوڑھے ایک فین ہر صورت اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لائیک، کمنٹ کا چکر دونوں کی بے چینی اور ہیجان کو عارضی طور پر کم کرتا ہے۔
اب سٹاکنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اور جس کو سٹاک کیا جا رہا ہوتا ہے وہ کہتی ہے، ’میرا کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، ہر بات میری سوشل میڈیا پر عام ہے۔‘
سٹاکر کہتا ہے کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس بات کا بھی ٹک ٹاکر سٹیٹس لگا کر سند بخشتی ہے کہ اس نے رشتے کے لیے ہاں نہیں کی پر اس آفر کو کھلے دل سے وصول کر کے اشتہار ضرور لگایا ہے۔
دونوں اطراف کی شخصیت کے منفی عوامل کو اس بے نام اور سطحی تعلق سے کھاد ملتی رہتی ہے۔ یہ تعلق ہر گز اب اک سیلیبریٹی اور فین کا نہیں رہتا۔ پھر مردانہ اجارہ داری اور اینٹی سوشل عوامل غالب آنے لگتے ہیں۔ ٹک ٹاکر جو فین کو اپنے جلوؤں کا شکار سمجھ بیٹھی تھی، اب خود شکار بننے لگتی ہے۔ شروع میں تنگ گھیرا اور ہلکی دھمکیاں توجہ کا اک انداز لگتی ہیں، مگر آہستہ آہستہ پانی سر سے اونچا ہوتا جاتا ہے۔
دوسری طرف کوئی گہرا احساس نہیں ہے، کسی عمل پر پشیمانی یا ندامت نہیں ہے۔ مکمل سپردگی چاہیے اور ہر قیمت پر چاہیے۔ وہ قیمت چاہے ٹک ٹاکر کی جان ہی کیوں نہ ہو یا اس کو اغوا کرکے اپنے تابع کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ بہت کم کیسز میں سائیکوٹک بیماری بھی ہوتی ہے جس میں غلط یقین ہوتا ہے کہ سیلیبریٹی میرے عشق میں مبتلا ہے (ایروٹومینیا)۔ نشے اور الکوحل کا استعمال رسک کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
یہ مسئلہ جو اب آئے روز سر اٹھا رہا ہے، اس کا حل کریں کیا؟ جواب ایک سائیکاٹرسٹ اور عام آدمی مل کر دیں گے۔ چونکہ دونوں پریشان ہوتے ہیں جب ہر کچھ روز بعد عوام ان نان ایشوز میں اپنا وقت برباد کرتی نظر آتی ہے یا جب یہ نان ایشو ایک ایشو بن کر کسی کی جان لے ڈالتا ہے۔ جوان ہوتے ہوئے بچوں کو بے چینی کم کرنے کے بہتر اور تعمیری طریقے سکھائیں۔ شخصیت میں توجہ کی طلب اور ڈرامائیت کو ایسے راستے دیں جن سے معاشرے کا فائدہ ہو اور کچھ حدود بھی متعین رہیں۔ اپنے عاشق یا فین کی معمولی دھمکی کو بھی ہلکا نہ جانیں اور رپورٹ کریں۔
نشہ آور اشیا اور الکوحل کے استعمال کو سب سے بڑا ریڈ فلیگ گردانیں اور ایسے فینز سے فاصلہ رکھیں۔
والدین اور معاشرہ ٹک ٹاک کے وجود کو تسلیم کرکے اس پر نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور کانٹینٹ اور پرائیویسی کے سخت مگر قابلِ عمل قوانین بنائیں۔ فرد اور معاشرے کو باؤنڈری سیٹنگ سکھائیں۔
یہ سب سے اہم حل ہے اس مسئلے سمیت بہت سے آپسی مسائل کا۔ کسی بھی رشتے میں چاہے وہ فین اور سیلیبریٹی کا ہی ہو، پہلے روز سے فریقین کی باؤنڈری سیٹنگ ہو اور دیوار پھلانگنے والے کو پہلی دفعہ ہی سرزنش کر دی جائے تو معاملات موت اور اغوا تک پہنچنے سے بچ سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈاکٹر اسامہ بن زبیر بورڈ سرٹیفائیڈ سائیکاٹرسٹ ہیں اور اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں شہروں میں پریکٹس کرتے ہیں۔