ٹی ٹی پی کی ’پاکستان میں مذاکرات‘ کی پیشکش کتنی اہم ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف نے افغان عبوری حکومت کو ’واضح پیغام‘ دیا تھا کہ وہ پاکستان مخالف ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ اور حمایت یا پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے میں سے ایک راستے کا انتخاب کریں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اس کی قیادت کسی کے ساتھ بھی بات چیت اور مسائل کی حل کے لیے ’پاکستان کے اندر‘ ملاقات کے لیے تیار ہے۔

یہ بیان وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے عسکریت پسندوں کے حوالے سے حالیہ سخت بیانات کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

شہباز شریف بنوں ایف سی لائن پر حملے میں جان سے جانے والے اہلکاروں کے خاندانوں سے تعزیت کے لیے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ہمراہ 13 ستمبر کو بنوں گئے تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے افغان عبوری حکومت کو ’واضح پیغام‘ دیا تھا کہ وہ پاکستان مخالف ’دہشت گردوں‘ کی ’پشت پناہی‘ اور حمایت یا پاکستان کے ساتھ تعلقات بنانے میں سے ایک راستے کا انتخاب کریں۔

بعد میں ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے مذاکرات اور بات چیت پشتون روایات اور معاشرے میں اہمیت کی حامل ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر کسی کو پاکستان کی سرزمین پر بات چیت کرنے اور مسائل کرنے کی فکر ہے تو ہم مضبوط ضمانت کے ساتھ اپنی قیادت کی ملاقات ان سے پاکستان کی سر زمین پر کرا سکتے ہیں۔‘

ی ایم ایچ بنوں کے باہر 13 ستمبر 2025 کو اپنے ویڈیو بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے یہ دہشت گرد پاکستان آتے ہیں اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر یہ خوارج ہمارے فوجیوں اور بھائیوں، بہنوں اور عام شہریوں کو شہید کر رہے ہیں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ضلع بنوں کے دورے کے دوران انسدادِ دہشت گردی سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت بھی کی تھی۔ اجلاس میں سکیورٹی حکام نے خطے کی مجموعی صورت حال، سرحدی چیلنجز اور حالیہ آپریشنز پر تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی۔

ٹی ٹی پی کے بیان پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟

عبدالسید سویڈن میں مقیم جنوبی ایشیا اور افغانستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں پر تحقیق کرتے ہیں اور اس پر کئی تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے شہباز شریف کے بیان پر مذاکرات کی پیشکش نئی بات نہیں ہے بلکہ وہ 2022 کے ناکام امن معاہدے کے بعد کئی بار یہ عندیہ دے چکے ہیں۔

عبدالسید نے بتایا کہ ’حالیہ پیشکش دراصل حکومت کے بڑھتے ہوئے فوجی مؤقف اور آپریشن کی تیاری کے ردعمل میں ہے تاکہ تاثر دیا جا سکے کہ طالبان بات چیت کے حامی ہیں جبکہ حکومت طاقت استعمال کر رہی ہے۔‘

ساتھ ہی عبدالسید کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی حکومت کے اس دعوے کا بھی جواب ہے کہ ٹی ٹی پی قیادت افغانستان میں ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نے پیشکش کی ہے کہ ان کی قیادت پاکستان میں مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کے بارے میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کمیٹی کے رپورٹس میں بھی بارہا ذکر کیا گیا ہے اور ان رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کرتی ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے مختلف مواقع پر اس دعوے کی تردید کی ہے۔

رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں مقیم صحافی اور گذشتہ 20 دہائیوں سے عسکریت پسندی سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان افغان طالبان پر دباؤ کم کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف کے بیان اور حالیہ دنوں میں شدت پسند کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے افغان طالبان پر دباؤ بڑھتا جا رہا اور اس دباؤ کا اثر ٹی ٹی پر بھی آتا ہے۔

رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ’اسی دباؤ کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کی ایک قسم کی پیشکش کی گئی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا ہے کہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہے۔‘

عمران خان کی جانب سے علی امین کو افغانستان جانے کی ہدایت پر رفعت اللہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں عمران خان ہی کے دور میں بھی مذاکرات ہوئے تھے تو اس کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔

’ابھی تو میں سمجھتا ہوں عمران خان اور پی ٹی آئی وفاقی حکومت کی بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے افغان حکومت سے مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں، ورنہ مذاکرات تو تب بھی ہوئے تھے جب پی ٹی آئی کی وفاق اور صوبے میں حکومت تھی لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا تھا۔‘

پشاور میں مقیم صحافی مشتاق یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان کے لیے حالیہ واقعات میں افغان شہریوں کی کارروائیوں میں ملوث ہونا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

تاہم مشتاق یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’افغانستان میں ٹی ٹی پی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں‘ ہے لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش بظاہر افغان طالبان پر دباؤ کم کرنا ہے۔

مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’ژوب میں کچھ عرصہ پہلے بڑی تعداد میں عسکریت پسند مارے گئے تھے اور اس میں زیادہ اور افغان باشندے تھے۔‘

دوسری جانب مشتاق  یوسفزئی کے مطابق ٹی ٹی پی کو بھی ’مختلف مسائل‘ ہیں جیسے ’عسکریت پسندوں کے بیوائیں اور بچوں کی کفالت‘ کے لیے ان کو معاشی وسائل بھی چاہیے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے مذاکرات کی پیشکش کر رہے ہے۔

حال ہی میں وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور افغانستان وفد بھیجنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے ایکس پر جاری اپنے پیغام میں صوبے میں سکیورٹی صورت حال کے تناظر میں افغانستان جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ عمران خان نے ایک تازہ ٹویٹ میں پشتون رہنما محمود خان اچکزئی کو بھی افغانستان مذاکرات کے لیے بھیجنے کی تجویز دی تھی۔

وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے 10 ستمبر کو تاہم پشاور میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ انہیں افغانستان جانے کی اجازت مل گئی ہے اور وفد کے ساتھ افغانستان جانے کے لیے تیار ہیں۔

علی امین گنڈاپور نے منگل کو بھی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا کو بتایا کہ ’وزیر اعلٰی بننے کے بعد پہلے دن سے یہی کہہ رہا ہوں کہ افغانستان جا کر افغان طالبان سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

تاہم علی امین نے بتایا کہ ’پہلے تو مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کا کوئی کام نہیں لیکن بعد میں افغانستان جانے کے لیے شرائط بھیجنے کا بتایا جو ہم نے بھیج دی ہیں۔

انہوں نے بتایا ’پانچ چھ ماہ سے ابھی تک ٹی او آرز کا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ ان (وفاقی حکومت) کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے تو پھر یہ مسئلہ ایسا ہی چلے گا کہ ہم انہیں اور وہ ہمیں ماریں گے۔‘

ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے ہیں لیکن ناکام رہے ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے 2023 میں بھی ایک سرکاری وفد افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا تھا اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے تھے۔

ان ادوار میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے ساتھ کابل میں ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں لیکن وہ ناکام رہے اور پاکستان میں عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر آئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان