کرونا وائرس کی درست رپورٹنگ کیسے ممکن؟

صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پبلک ہیلتھ کا تحفظ یقینی بنائیں، یاد رکھیں کرونا وائرس نہ تو نیوز دیکھتا ہے اور نہ ہی ٹوئٹر کی پروا کرتا ہے۔

اگر کوئی بات یا دعویٰ غیرمعمولی اور حیران کن محسوس ہو تو اسے چیک ضرور کر لیں۔ (اےایف پی)

دنیا بھر میں صحافی اور تحقیق کار کئی ہفتوں سے کرونا وائرس کی وبا کی مسلسل رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ نیوز ویب سائٹس لائیو پیج چلا رہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ہر کوئی علاج اور بچاؤ کے کچے پکے نسخے تقسیم کر رہا ہے۔

 تیزی سے پھیلتا ہوا کرونا صحافیوں اور سائنسدانوں کے لیے اپنی خبروں کی تحقیقات کرتے وقت چیلنج پیش کرتا ہے کہ وہ ٹھیک خبر پیش کریں اور ماہرین کی آرا کے سامنے افواہوں، آدھے سچ، مالی فائدے کے لیے سانپ کے تیل جیسے اشتہارات اور سیاسی پروپیگنڈے میں فرق کریں۔

ہم نے یہاں پانچ باتوں کا ذکر کیا ہے جن کا صحافیوں کو خیال رکھنا چاہیے:

1۔ ماہرین کا انتخاب احتیاط سے

اگر کسی نے ایک مخصوص شعبے میں نوبیل انعام حاصل کر رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ تمام سائنسی مسائل کا ماہر ہے۔ اس کے علاوہ کسی مضمون میں پی ایچ ڈی یا معروف میڈیکل ادارے سے منسلک ہونا بھی کسی کو ہر سائنسی مسئلے کا ماہر نہیں بناتا۔

ڈیڈلائن اور مقابلے کی دوڑ میں اکثر صحافی ایسے لوگوں سے بات کر لیتے ہیں جن کے پاس ایسے مسئلے پر معلومات محدود ہوتی ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک بات بن جاتی ہے بالخصوص اگر کوئی پبلک ہیلتھ مسئلے کی کوریج کر رہا ہو۔

بل ہنیج، ہارورڈ میں ایپڈمالوجی کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ان خبروں سے ہی اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ ان کا صحافیوں کو مشورہ ہے کہ وہ کسی اچھے ماہر کے انتخاب میں وقت لیں اور تحقیق کریں۔ اس وقت چونکہ ماہرین بھی کرونا یا کویڈ 19 کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ایک سے زیادہ ماہرین سے بات کریں۔

صحافیوں کو ان تحقیقات کاروں کی بھی بات تسلیم کرنی چاہیے کہ اگر وہ کہیں کہ انہیں اس ایشو کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں۔ ایک اچھا ماہر یہ کہے گا کہ اسے اس بارے میں معلوم نہیں یا یہ میری فیلڈ نہیں ہے۔

2۔ عام فہم سچ اور ’کسی کے خیال میں سچ‘ کے درمیان فرق کرنا سمجھیں، قیاس اور رائے کو بھی جانیں۔

صحافیوں کو چاہیے کہ وہ کسی ماہر سے بات کرتے ہوئے واضح کریں کہ انہیں کیا معلوم ہے اور کون سی بات وہ اپنے تجربے اور مشاہدے کے ذریعے جانتے ہیں۔

جیسے ہنیج کے مطابق ہمیں معلوم ہے کہ یہ بیٹا (beta) کرونا وائرس ہے جو ایک حقیقت ہے لیکن اگر آپ پوچھیں گہ کہ اس سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے تو یہ مختلف بات ہے۔ ’خبروں کو بہت کم رائے اور قیاس آرائیوں پر انحصار کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ کہ بچوں میں کرونا وائرس کی شدید علامات کیوں نہیں پائی جاتی ہیں؟‘

3۔ شائع نہ ہونے والے (پری پرنٹ) اکیڈمک رسائل سے معلومات حاصل کرنے میں احتیاط کریں۔

محققین اکثر علمی میگزین میں اپنی تحقیق کے نتائج شائع کرتے ہیں لیکن چونکہ اس میگزین کی اشاعت میں ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے اس لیے محققین کبھی اس کا مسودہ پری پرنٹ کی صورت میں بھی جاری کر دیتے ہیں۔ ہنیج صحافیوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ان پری پرنٹس کا ابھی تفصیلی ماہرانہ جائزہ نہیں لیا گیا ہوتا، اس لیے ان میں موجود معلومات سے کوئی رائے بنانے میں احتیاط کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سلسلے میں پہلی ہی کئی غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں۔ مثال کے طور پر کئی خبروں میں کرونا اور ایچ آئی وی کا تعلق بتایا گیا ہے جس کے لیے انڈیا میں سائنسدانوں کے غیرشائع شدہ پیپرز کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ تحقیق اب واپس لے لی گئی ہے۔

4۔ نئے مفروضوں اور دعوؤں کو جانچنے کے لیے ماہرین سے مدد لیں۔ غلط خبر یا تاثر کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر نیوز ادارے اپنے اداریوں کا بھی فیکٹ چیک کریں۔

اگر کوئی بات یا دعویٰ غیرمعمولی اور حیران کن محسوس ہو تو اسے چیک ضرور کر لیں۔ برطانیہ میں ایک نیوز ادارے نے ایسا دعوی کیا جسے ایپڈمالوجسٹ مسترد کر دیتے۔ ارضیات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے ایکسپریس برطانیہ کو بتایا کہ گذشتہ برس شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا چین میں گرا جس سے غالباً نیا کرونا وائرس روئے زمین پر آیا۔

ہنیج مشورہ دیتے ہیں کہ کسی دوسرے مشورہ کر لیں۔ اگر وہ بھی آپ سے کہے کہ آپ یہ خبر شائع کرکے بدھو لگیں گے تو اسے شائع نہ ہونے دیں۔

اسی وجہ سے نیوز رومز حقائق کو چیک کریں۔ نیو یارک پوسٹ میں ایک حالیہ اداریاتی مضمون میں کہا گیا کہ کرونا وائرس چین کی بائیولوجیکل  لیبارٹری سے لیک ہونے والا ہتھیار ہے۔ یہ مضمون پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے صدر نے لکھا تھا جو آبادی کو کنٹرول کرنے کے خلاف ہے۔

صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پبلک ہیلتھ کا تحفظ یقینی بنائیں۔ یاد رکھیں کرونا وائرس نہ تو نیوز دیکھتا ہے اور نہ ہی ٹوئٹر کی پروا کرتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت