’پاکستان سے ریاض ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، مجھ سمیت خاندان والے بھی کرونا وائرس کی وجہ سے پریشان تھے، لیکن ایئرپورٹ پر 12 گھنٹے انتظار کے بعد ہمیں ایک گاڑی میں بٹھا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل میں لے جایا گیا، جہاں ہمیں پتہ چلا کہ اس ہوٹل کو قرنطینہ مرکز بنا دیا گیا ہے۔‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سلیم خان (فرضی نام) پیر کے روز خصوصی پرواز سے سعودی عرب پہنچے، جہاں انہیں اور دیگر پاکستانیوں کو 14 دن کے لیے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں رکھا گیا ہے، جسے قرنطینہ مرکز بنا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ کرونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر سعودی عرب کے اس اعلان کے بعد کہ 15 مارچ تک اقامہ رکھنے والے پاکستانی شہری سعودی عرب پہنچ جائیں، وہ چھٹیاں پوری ہونے سے پہلے ہی ٹکٹ لے کر ریاض کے لیے روانہ ہو گئے تاکہ بعد میں ان کو جانے میں مسئلہ نہ ہو۔
انہوں نے بتایا: ’ہم ایک نجی ایئر لائن کی پرواز کے ذریعے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے ہمیں 14 دن کے لیے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرا دیا، جسے قرنطینہ مرکز بنا دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ہوٹل پہنچنے کے بعد انہیں تسلی ہوئی کہ ان کو کسی ہسپتال میں نہیں بلکہ ایک آرام دہ جگہ پر رکھا گیا ہے۔
سلیم سعودی عرب کی ایک نجی کمپنی میں گذشتہ تین سال سے ملازمت کر رہے ہیں اور حال ہی میں وہ چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے۔
قرنطینہ مرکز میں کیا سہولیات موجود ہیں؟
جب سلیم سے پوچھا گیا کہ قرنطینہ مرکز میں ان کو کیا سہولیات فراہم کی گئی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ مرکز میں ہر ایک مسافر کو الگ الگ، صاف ستھرے کمرے دیے گئے ہیں، جہاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کی سہولت سمیت چائے بنانے کے لیے الیکٹرک کیتلی بھی موجود ہے۔
سلیم کے مطابق ہر ایک مسافر کو جوتے پالش کرنے کے لیے الگ کِٹ مہیا کی گئی ہے جبکہ ڈینٹل اور شیونگ کِٹ بھی روز ملتی ہے۔
سلیم نے کھانے کے حوالے سے بتایا کہ ایئرپورٹ پر انتظار کے دوران فاسٹ فوڈ اور ریفریشمنٹ کی کچھ چیزیں دی گئی تھیں لیکن ہوٹل میں منتقل ہونے کے بعد ہر وقت کے کھانے کے لیے الگ مینیو ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ناشتے میں سعودی ناشتہ دیا جاتا ہے، جس میں سلاد، پھل اور جوس شامل ہوتا ہے، دوپہر کے کھانے میں چاول کے ساتھ چکن، سلاد، سبزی اور ساتھ میں منرل واٹر کمرے میں پہنچایا جاتا ہے جبکہ ڈنر میں ان کو مٹن کے ساتھ چاول، سلاد اور پھل مہیا کیے جاتے ہیں۔
سلیم کے مطابق سعودی حکام نے انہیں ہدایت دی ہے کہ اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو کمرے سے باہر نہیں نکلنا ہے بلکہ روم کیپر کو فون کر کے بتانا ہے، جس پر مطلوبہ چیز انہیں کمرے میں پہنچا دی جائے گی، تاہم اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ روم کیپر سمیت باہر کے لوگوں کے ساتھ رابطہ کم ہو۔
سلیم کے مطابق اس ہوٹل کے کمرے کا فی رات کرایہ تقریباً 1250 سعودی ریال ہے جو تقریباً 50 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔
مرکز میں چیک اپ کا کیا انتظام ہے؟
سلیم نے بتایا کہ اس قرنطینہ مرکز میں طبی عملہ 24 گھنٹے موجود ہے اور ہر گھنٹے بعد ان کا معائنہ کیا جاتا ہے، جس کے دوران جسم کا درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے اور کرونا کی علامات دیکھے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ چیک اپ کے دوران یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کس طرح ہاتھ دھونے سے اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔
’سب سہولیات ہیں، لیکن ایسا لگ رہا جیسے جیل میں ہوں‘
سلیم کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہیں ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے، جہاں تمام سہولیات موجود ہیں لیکن پھر بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے انہیں کسی نے 14 دن کے لیے جیل بھیج دیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’جب دوستوں سے ملنے پر پابندی ہو، کمرے سے باہر جانے پر پابندی ہو اور کسی بھی شخص سے آمنے سامنے بات نہ کی جاسکتی ہو تو بھلے جتنی بھی سہولیات دے دی جائیں، وہ جگہ آپ کو جیل ہی لگے گی۔ دعا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا تھم جائے تاکہ پوری دنیا سکھ کا سانس لے۔‘