کیا ہم واقعی کرونا وائرس کے خاتمے کی امید کر سکتے ہیں؟

رابرٹ ڈنگوال جو کہ نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں سماجی سائنس پڑھاتے ہیں وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں کہ ’سائنسی بنیادوں پر بھی کوئی ٹائم ٹیبل دینا ناممکن ہے۔‘

صحت کے مسائل سے دوچار اور 70 سال سے زائد عمر کے افراد سمیت حاملہ خواتین کو بھی 21 مارچ سے اگلے 12 ہفتوں کے لیے سیلف آئیسولیٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے (اے ایف پی)

برطانیہ میں کرونا وائرس کی منتقلی کا پہلا کیس 29 فروری کو رپورٹ کیا گیا تھا اور ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں یہاں 144 ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور کووڈ 19 کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کے بعد حکومت نے اب یونیورسل ٹیسٹنگ بند کر دی ہے۔

کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پانے کے لیے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام کو ’سماجی فاصلے‘ کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا ہے جس کے تحت گھر سے کام کرنے اور غیر ضروری سفر سے اجتناب شامل ہے۔

صحت کے مسائل سے دوچار اور 70 سال سے زائد عمر کے افراد سمیت حاملہ خواتین کو بھی 21 مارچ سے اگلے 12 ہفتوں کے لیے سیلف آئیسولیٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

لیکن کیا حکومت امید کر رہی ہے کہ کرونا وائرس 12 ہفتوں میں ختم ہو جائے گا؟ بورس جانسن کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ برطانیہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف اگلے تین مہینے میں پانسہ پلٹتے ہوئے ’اسے ہمیشہ کے لیے روانہ‘ کر دے گا۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیسے کریں گے۔

برطانیہ کے چیف سائنسی مشیر سر پیٹرک ویلنس کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے وقت کا تعین کرنا ناممکن ہے‘ اور رپورٹ کی جانے والی ایک اور حکمت جس کے تحت اس وبا پر قابو پانا ہے وہ برطانوی آبادی کو ’اجتماعی ایمیونٹی‘ کی اجازت دینا ہے۔ جس کے لیے برطانیہ کو کم سے کم ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو ہم کتنا عرصہ برطانیہ میں کرونا کے مزید پھیلنے کی امید کر سکتے ہیں اور معمول کی زندگی کی جانب واپس جانے کے لیے ہمارے پاس کون سے راستے موجود ہیں؟

یہ وائرس کب ختم ہو گا؟

یونیورسٹی آف ریڈنگ میں سیلولر مائیکربیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سیمن کلارک کہتے ہیں کہ ’اس کی کوئی تاریخ دینا ناممکن ہے۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر کوئی آپ کو تاریخ دیتا ہے تو انہوں نے جادوئی گولے میں دیکھنا شروع کر دیا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے ساتھ اب ہمیشہ کے لیے رہے گا کیونکہ یہ پھیل چکا ہے۔‘

ڈاکٹر کلارک کا کہنا ہے کہ ’یہ زیادہ پیچیدہ اس لیے ہے کہ یہ لوگوں میں بغیر کوئی علامات ظاہر کیے رہ سکتا ہے اور پھر ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ کہا جا سکے کہ یہ ہمیں مستقبل میں متاثر نہیں کرے گا۔‘

یونیورسٹی آف سسکس کی ماہر ایمیونولوجی ڈاکٹر جینا میچوچی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس کے خاتمے کی کوئی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم سب جاننا چاہتے ہیں اور مجھے شک ہے کوئی اس کا جواب جانتا ہو  گا کیونکہ ایسا بہت سی وجوہات پر منحصر ہے۔ میں کہوں کی فی الحال ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔‘

رابرٹ ڈنگوال جو کہ نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں سماجی سائنس پڑھاتے ہیں وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں کہ ’سائنسی بنیادوں پر بھی کوئی ٹائم ٹیبل دینا ناممکن ہے۔‘

ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی میں گلول ہیلتھ فیلو اور سینئیر ری سرچر مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ کسی قسم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ کرونا ایک نیا وائرس ہے۔ ان کے مطابق نئے وائرس کے مستقبل کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا کافی مشکل کام ہے۔ یاد رہنے والی تاریخ میں اس سطح کی وبا کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ ’ گلوبلائزیشن اور عالمی رابطے کی سطح اتنی زیادہ ہے کہ کسی یقین کے ساتھ ’اینڈگیم‘ کی پیش گوئی کرنا یا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ لیکن مائیکل ہیڈ کو امید ہے کہ ’اگلے کچھ مہینوں‘ میں کرونا کے کیسز کو محدود کر کے ’کم ترین سطح‘ پر لایا جا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’سردیاں آتے ساتھ ہی کرونا وائرس کے کیسز میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو سکتا ہے جب موسمی زکام عام ہو اور ہسپتالوں اور طبی سہولیات پر پہلے ہی زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔‘

کیا لاک ڈاؤن کرونا کا پھیلاؤ روک سکتا ہے؟

باقی یورپی ممالک جیسے کے اٹلی میں حکام کی جانب سے سخت حفاظتی اقدامات لیے جا رہے ہیں تاکہ کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ جن میں لاک ڈاؤن کرنا اور لوگوں کی قلیل تعداد کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دینا ہے وہ بھی صرف ایمرجنسی یا خوراک اور ادویات لانے کی صورت میں باہر نکل سکتے ہیں۔

کیا برطانیہ میں کرونا کا پھیلاؤ کم کرنے کے لیے ایسے اقدامات کام کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر جینا کہتی ہیں کہ وائرس پر اس طرح سے قابو پانے کا انحصار اس بات پر ہے کہ لوگ اس حکمت عملی کو کیسے اپناتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'اگر ہم نے ایک بار یہ قدم اٹھایا تو ہم نہیں جانتے کہ یہ کتنے عرصے کے لیے ہو گا۔ اگر ہم لوگوں کو جلد ہی معمول کی زندگی کی جانب واپس جانے دیں تو یہ واپس آسکتا ہے۔ اگر ہم ایک مختصر وقت کے لیے لاک ڈاون کرتے ہیں تو بھی امکان ہے کہ یہ کافی نہیں ہو گا۔'

کیا ہم کرونا وائرس کی ویکسین بنا سکتے ہیں؟

برطانیہ کے چیف طبی مشیر پروفیسر کرس ویٹی کا کہنا ہے کہ ’طویل المدتی حل، گو کہ ویکسین اس کا ایک حل ہے لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا جلد سے جلد ہو سکے۔‘

ڈاکٹر کلارک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کرونا وائرس سے مقابلے کے لیے ویکسین ہی ایک حل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ہی حالات کو قابو کر سکے گی۔ ہم علامات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے  ہیں لیکن پھر علاج کرنا پڑے گا ورنہ ہم اس سے جان نہیں چھڑا سکیں گے۔‘

کسی بھی انسان پر کرونا وائرس کی تجرباتی ویکیسن کا تجربہ گذشتہ ہفتےامریکہ میں پہلی بار گیا گیا جب سائنسدانوں کو اس بات کی خصوصی اجازت دی گئی تھی کہ وہ عام طور پر رائج جانوروں پر کیے جانے والے تجربے کے مرحلے کو چھوڑ کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اگر ملک کی 60 فیصد آبادی کو ویکسین دے دی جائے تو یہ لوگ اجتماعی ایمیونٹی حاصل کر لیں گے جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں یہ وائرس آسانی سے نہیں پھیل سکے گا۔ یہ اجتماعی ایمیونٹی متنازعہ طور پر اس وائرس کو مزید پھیلنے کی اجازت دینے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس کے بعد ہر انسان کا انفرادی قوت مدافعت کا نظام اس سے مقابلے کے لیے صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔

پروفیسر رابرٹ کے مطابق کرونا انسانی آبادی کے لیے ایک موسمی وبا جیسے کہ انفلوئنزا کی شکل اختیار کر سکتا ہے اگر ایک محفوظ اور موثر ویکسین نہیں بنائی جاتی جو کہ بڑے پیمانے پر تیار کر کے استعمال کرنی ہو گی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم ایسا چیچک کے ساتھ کر چکے ہیں اور اب پولیو کے ساتھ بھی کرنے والے ہیں۔ خسرے کے حوالے سے بھی ہم کافی کچھ کر چکے ہوتے اگر حال ہی میں سامنے آنے والی اینٹی ویکس مہم نہ چل رہی ہوتی۔‘

لیکن ڈاکٹر کلارک کے مطابق یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ویکسین کے ساتھ آپ کو قوت مدافعت کا محفوظ رد عمل بھی شروع کرنا ہے اور ادھیڑ عمر افراد کا مدافعتی نظام ایسا نہیں کر سکے گا۔ اس نظام کے ذریعے بعد میں آنے والے انفیکشنز سے بھی نمٹنا ہو گا۔ یقینی طور پر اس ویکسین کو محفوظ اور لمبے عرصے تک کار آمد رہنا ہو گا۔ لوگوں کو چند ماہ کے لیے ایمیونٹی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

ان کے مطابق جلد سے جلد ویکسین کا مطلوبہ مقدار میں تیار ہونا بھی ایک اضافی مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر کلارک کہتے ہیں کہ ’میں لوگوں کو یاد کرا رہا ہوں کہ ہم گذشتہ 40 سال سے ایچ آئی وی کی ویکسین تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

پروفیسر جینا اور مائیکل ہیڈ کا اندازہ ہے کہ کرونا کی ویکسین کے مارکیٹ تک آنے میں کم سے کم 12 سے 18 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

ڈاکٹر کلارک کہتےہیں کہ 'یہ تجربے کے دوران کسی بھی مرحلے پر ناکام ہو سکتا ہے۔'

کیا کوئی اور حل ممکن ہے؟

پروفیسر جینا کا کہنا ہے کہ اگلے کچھ ہفتے میں ہم 'دیکھیں گے اور انتظار کریں گے' کہ دنیا کے باقی ممالک اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے کیا کرتے ہیں اور ان کی حکمت عملی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

پروفیسر جینا کہتی ہیں کہ 'مجھے یقین ہے چین میں حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ہم دوسرے وائرسز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں لیکن کرونا بہت جلدی پھیل رہا ہے جس کا یقینی طور پر یہی مطلب ہے کہ یہ دنیا میں ایک لمبے عرصے کے لیے رہے گا۔'

مائیکل ہیڈ کہتے ہیں کہ فی الحال حکومت کی حکمت عملی برطانیہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ٹیسٹ کرنا ہونا چاہیے۔ ہمیں نشاندہی کے لیے بہتر سہولیات چاہییں اور ان کی تشخیص کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے جو اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'یہ ہماری ردعمل کی کوششوں کے لیے بہت مددگار ہو گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ برطانیہ اور باقی ممالک میں ان کوششوں کو جلد ہی دیکھ سکیں گے۔'

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس