پشاور کا علاقہ جسے قرنطینہ میں لانے کی ضرورت ہے

پشاور کی یونین کونسل گنج کی کہانی کا آغاز 15 مارچ کو ہوتا ہے۔ جب وہاں کے ایک رہائشی رفیق جان (فرضی نام) اپنی بیوی، بیٹی اور بیٹے کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچتے ہیں۔

(تصویر: عبداللہ جان)

پشاورکی گنجان آباد یونین کونسل 'گنج' سعودی عرب سے آئی ایک خاتون میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد مردان کا علاقہ منگا ثابت ہو سکتی ہے جہاں عمرے سے واپس آنے والے ایک شخص کی بے احتیاطی نے درجنوں افراد کو مہلک جرثومے سے متاثر کیا تھا۔

یونین کونسل گنج کے محلہ ہودہ میں سعودی عرب سے آنے والے ایک خاندان کی پچیس سالہ خاتون رکن میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ جبکہ باقی اہل خانہ کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔ اور محلہ ہودہ کی ایک گلی کو سِیل کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک  ہونے والے پہلے پاکستانی سعادت خان کا تعلق مردان کی یونین کونسل منگا سے تھا جنہوں نے عمرے کی ادائیگی کے بعد واپس آکر بغیر کسی احتیاط کے لوگوں سے ملنا جلنا جاری رکھا۔

چند روز بعد ہی سعادت خان کی کووڈ۔19 کے باعث ہلاکت واقع ہوئی۔ جبکہ اس عرصے کے دوران سعادت خان سے براہ راست جسمانی رابطے میں آنے والے درجنوں رشتہ دار، دوست اور پڑوسی بھی کرونا وائرس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 

پشاور کی یونین کونسل گنج کی کہانی بھی مرحوم سعادت خان کے علاقہ منگا سے ملتی جلتی ہے اور اگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تو یونین کونسل گنج میں بھی منگا کی طرح درجنوں لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

پشاور کی یونین کونسل گنج کی کہانی کا آغاز 15 مارچ کو ہوتا ہے۔ جب وہاں کے ایک رہائشی رفیق جان (فرضی نام) اپنی بیوی، بیٹی اور بیٹے کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچتے ہیں۔

انہیں لینے کے لیے آئے ہوئے رشتہ دار ائر پورٹ پر موجود ہیں جن کے ہمراہ سعودی عرب سے لوٹنے والا خاندان پرائیوٹ کوچ کے ذریعے پشاور تک کا سفر کرتا ہے۔

رفیق جان کے بیٹے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاہور میں ائیر پورٹ پر ان کا کوئی ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔

ان کے خیال میں ان دنوں حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ شاید اسی لیے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے کرونا وائرس ٹیسٹ نہیں کیے جا رہے تھے۔

زندگی بالکل معمول کے مطابق چل رہی تھی کہ اچانک انتیس مارچ کو رفیق جان کی پچیس سالہ بیٹی کو بخار اور کھانسی کی تکلیف شروع ہوئی۔ ایک آدھ دن کے گھریلو علاج کے بعد وہ پشاور کے نجی اسپتال رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ (آر ایم آئی) گئیں۔

علامات کے پیش نظر ہسپتال میں ان کا کرونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کیا گیا۔ جس کے مثبت ثابت ہونے پر انہیں سرکاری اسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (ایچ ایم سی) بھیج دیا گیا جہاں وہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر پشاور کی رپورٹ کے مطابق مریضہ سعودی عرب سے آنے کے بعد کسی سے نہیں ملیں۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس سعودی عرب میں قیام کے دوران حاصل کیا۔

خاتون کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے محلہ ہودہ کی وہ گلی جس میں رفیق جان کا خاندان رہائس پذیر ہے کو سیل کر دیا ہے۔ گلی کے دونوں جانب پولیس تعینات کر دی گئی ہے جبکہ محکمہ صحت کے اہلکار بھی موجود ہیں۔

محلہ ہودہ میں جراثیم کش ادویات بھی چھڑک دی گئی ہیں جبکہ آس پاس کی گلیوں میں صفائی بھی کر دی گئی ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے اپنی رپورٹ میں گنج یونین کونسل کے پورے محلہ ہودہ کو قرنطینہ میں رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔

تاہم مقامی انتظامیہ نے محلہ ہودہ کی صرف اس گلی  کو سِیل کیا ہے جس میں رفیق جان کا گھر واقع ہے۔ اس گلی میں نو گھر ہیں جن میں تقریبا ایک درجن خاندن رہتے ہیں۔

محلہ ہودہ کے رہائشی احمد خان (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ کو پورا محلہ ہودہ قرنطینہ میں رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہ کہ سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد مذکورہ خاندان کے مرد علاقے میں لوگوں سے ملتے رہے ہیں۔ جبکہ ان کے گھر مہمان بھی آتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔

خیبر پختون خوا کے محکمہ ہیلتھ کی ٹیم نے دو روز جمعرات کے روز محلہ ہودہ کا دورہ کیا اور رفیق جان کے خان دان کے تمام افراد کا طبی معائنہ کیا۔ محکمہ صحت کے ایک اہلکار کے مطابق اس گھر میں دو خاندان رہائش پذیر ہیں۔ اور مجموعی طور پر گیارہ لوگوں سے نمونے حاصل کیے گئے ہیں۔

محلہ ہودہ کے رہائشی اظہر علی شاہ فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں: قابل غور بات یہ ھے کہ متاثرہ خاندان نے ان پندرہ دنوں میں کن کن لوگوں کے ساتھ ملاقات کی ھوگی۔ ھاتھ ملایا ھوگا۔ گلے ملے ھوں گے۔ بازار بھی گئے ہوں گے۔ اور دکانداروں کے علاوہ دیگر جاننے والوں سے بھی ملے ہوں گے۔ پھر کتنے لوگ ان سے ملنے ان کے گھر آئے ہوں گے۔ یہ سوالات بہت گھمبیر حالات کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

گنج اور منگا کی کرونا وائرس سے متعلق کہانیوں میں مندرجہ ذیل مماثلتیں  واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ 

پہلی مماثلت یہ کہ دونوں علاقوں سے لوگ عمرے کی ادائیگی کے بعد سعودی عرب سے لوٹے ۔

دوسرا دونوں کیسز میں واپس آنے والوں کا ائر پورٹ پر کرونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں ہوا۔

تیسری مماثلت یہ کہ دونوں نے واپسی کے بعد چودہ روز کا عرصہ قرنطینہ میں نہیں گزارا۔

اور چوتھا یہ کہ دونوں اس عرصے کے دوران دوسرے لوگوں سے آزادانہ ملتے جلتے رہے۔ اور کسی معاشرتی دوری کا لحاظ نہیں رکھا۔

یونین کونسل گنج قدیم شہر پشاور کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ تنگ گلیاں،  چھوٹے چھوٹے گھروں میں کئی کئی افراد کی رہائش اور صفائی کا فقدان شہر کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں کا بھی خاصہ ہیں۔

آبادی زیادہ ہونے اور رہائشیوں کی اکثریت کا معاشی طور پر نچلے طبقے سے تعلق کے باعث لوگوں کو معاشرتی دوری پر آمادہ کرنا نسبتا مشکل امر ہے۔

یونین کونسل گنج کے رہائشی اور پشاور کی ضلع انتظامیہ نے اس علاقہ میں معاشرتی دوری کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے تو گنج اور منگا کی مماثلتیں مزید زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔  جو بہت خوشگوار صورت حال نہیں ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان