قبائلی اضلاع میں شدت پسندوں کے خلاف غیراعلانیہ ٹارگٹڈ آپریشن

مبصرین کے خیال میں قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بعد سے دہشت گرد افغانستان منتقل ہوگئے تھے، اگر اس وقت افغانستان اور پاکستان میں ایک ساتھ کارروائیاں ہوتیں تو دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن تھا۔

سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں دو عشروں تک فوجی کارروائیوں کے باوجود بھی دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے بدستور موجود ہیں  (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں چھپے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے غیر اعلانیہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر رکھا ہے، جس میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران دو درجن سے زیادہ طالبان شدت پسند جبکہ ایک درجن کے قریب سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے ہیں۔

گذشتہ روز یعنی منگل کو سکیورٹی فورسز نے 24 گھنٹوں کے دوران شمالی وزیرستان اور مہمند میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ملنے پر دو الگ الگ کارروائیاں کیں، جن میں فوج کے شبعہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق سات دہشت گرد ہلاک ہوگئے اور ان کے ٹھکانوں سے گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔ البتہ اس کارروائی میں سکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اسی طرح جنوری کے مہینے میں شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں افغان سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز نے ایک مرکز میں طالبان کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی، جس کے نتیجہ میں چھ شدت پسند مارے گئے تھے۔ اس کارروائی میں شدت پسندوں کی جوابی کارروائی میں دو سپاہی محمد شمیم اور اسد خان بھی ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے ملحقہ علاقے لونی میں سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں دو شدت پسند مارے گئے تھے۔

کچھ عرصہ قبل شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل کے جنوب مغرب میں سات کلومیٹر دور ماما زیارت میں ہی خفیہ اطلاع پر آپریشن کے دوران سات دہشت گرد ہلاک جبکہ چار جوان ہلاک ہوگئے تھے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا تھا

آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں جان کی بازی ہانے والوں میں لاہور کے 26 سالہ لیفٹیننٹ آغا مقدس علی خان، لیہ کے حوالدار قمر ندیم اور لیہ کے 24 سالہ سپاہی محمد قاسم جبکہ نارووال کے 30 سالہ سپاہی توصیف شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں دو عشروں تک فوجی کارروائیوں کے باوجود بھی دہشت گردوں کے مضبوط ٹھکانے بدستور موجود ہیں، جہاں سے وہ عام شہریوں اور حکومت کے اہلکاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

مبصرین کے خیال میں قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے بعد سے دہشت گرد اسلحے کے ساتھ افغانستان منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کو محفوظ پناہ گاہیں بھی ملی تھی۔ اگر اُس وقت سرحد کے آرپار دونوں ملکوں یعنی افغانستان اور پاکستان میں ایک ساتھ کارروائیاں ہوتیں تو دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن تھا۔

شمالی وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی میرقلم نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد علاقے سے صرف دہشت گرد فرار نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک بڑی تعداد میں عام شہری بھی افغانستان چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'افغانستان کے صوبہ خوست میں گلان نامی متاثرین کیمپ میں شمالی وزیرستان کے ہزاروں متاثرین بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خود دہشت گردوں میں اضافہ نہ کرے بلکہ ان متاثرین کو اپنے لوگ سمجھ کر پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔'

میر قلم کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے لوگ طالبان کے نام اور دہشت گرد کارروائیوں سے تنگ آچکے ہیں، وہ دوبارہ فوجی کارروائیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

دوسری جانب آج (بدھ کو) بھی وانا بازار میں طالبان کمانڈر نور خان العروف ماندتے گل کو سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ماندتے گل وانا بازار میں کرونا وائرس کے حلاف لاک ڈاؤن کے دوران وانا بازار میں گھوم پھر رہے تھے کہ اس دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ آمنا سامنا ہوا، انہیں بازار سے جانے کو کہا گیا، جس پر انہوں نے کلاشنکوف سے سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

ماندتے گل حکومت کے حامی مُلا نذیر گروپ کے ایک کمانڈر تھے اوران دنوں کمانڈر ملنگ کی زیر نگرانی طالبان کی سرگرمیوں کو چلا رہے تھے۔

45 سالہ ماندتے گل 2005 سے پہلے دبئی میں ڈرائیور تھے اور وہاں سے واپسی پر طالبان میں شامل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ طالبان کے ساتھ کئی سرگرمیوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ 2007 میں وانا کے مقام پر مُلا نذیر گروپ کی جانب سے غیر مُلکی ازبکوں کے خلاف جنگ میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور مُلا نذیر کے ساتھ فرنٹ لائن پر لڑ رہے تھے۔ اس کے بعد سے ماندتے گل کو کافی شہرت ملی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان