اب چائے بھی خود بنانا پڑتی ہے: ٹرک ڈرائیور لاک ڈاؤن سے پریشان

ملک میں جہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر ہیں وہیں قومی شاہراہوں پر سفر کرنے والے ٹرک ٖڈرائیور حضرات چائے کے ڈھابے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف ٹرکوں کو کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کی اجازت ہے (میر ہزار)   

جس طرح گاڑی کو چلانے کے لیے پٹرول کی ضرورت پڑتی ہے اس طرح پاکستان کے پیشہ ور ڈرائیور حضرات کو اپنی توانائی برقرار رکھنے کے لیے چائے درکار ہوتی ہے۔ 

قومی شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے اکثر ہمیں ہوٹلوں پر ٹرک، کنٹینرز، کوچز اور دیگر گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔ دراصل ان گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے یہاں آرام، کھانا اور چائے پی رہے ہوتے ہیں ۔

ان دنوں ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے قومی شاہراہوں پر موجود ہوٹل بھی بند ہیں اور بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر بھی صورتحال مختلف نہیں۔ 

35 برس سے ٹرک ڈرائیونگ کرنے والے سعید کو کرونا وائرس سے تو خطرہ محسوس نہیں ہوتا البتہ وہ قومی شاہراہوں پر ہوٹلوں کی بندش سے ضرور پریشان ہیں۔ 'ہم دن رات سفر میں رہتے ہیں اور ہمیں کھانے سے زیادہ چائے کی طلب ہوتی ہے جو ہمیں دوران سفر جاگنے میں مدد دیتی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرک ڈرائیور سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ 'چائے اور ڈرائیور لازم و ملزوم چیزیں ہیں اور انہیں الگ کرنا ممکن نہیں۔ اگر آپ کو یہ معلوم کرنا ہو کہ پورے پاکستان میں کہاں اچھی چائے ملتی ہے تو ڈرائیور سے پوچھیں وہ آپ کو نہ صرف ہوٹل بتائے گا بلکہ اچھے اور برے ہوٹل کی معلومات بھی فراہم کرے گا۔ '

عام گاڑیوں اور بسوں کے برعکس مال سے بھرے ٹرک آہستہ سفر کرتے ہیں اور اس لیے کراچی سے کوئٹہ کا فاصلہ جوعام گاڑیاں آٹھ سے 10 گھنٹے میں طے کرتی ہیں وہ یہی ٹرک دو سے تین دن میں طے کرتے ہیں۔

سعید جیسے ٹرک ڈرائیور حضرات کو اگر ان حالات میں قومی شاہراہ پر کہیں چائے مل جائے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔  یہ کہنا ہے تنویر کا، جو آج بھی قومی شاہراہ پر ایک ڈھابہ ہوٹل کھولے ہوئے ہیں۔ 

ان کا ہوٹل بہت چھوٹا سا ہے اور مختصر اوقات میں کھلتا ہے۔ تنویر کہتے ہیں کہ کرونا وبا سے ہر قسم کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے کیونکہ اب شاہراہ پر وہ ٹریفک ہی نہیں، لیکن ان کی چائے کی فروخت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کی طلب بڑھ گئی ہے۔ 

'میرے ڈھابے کے علاوہ آپ کو کوئٹہ سے قلات تک کہیں بھی چائے سموسے نہیں ملیں گے کیونکہ لاک ڈاؤن کے باعث سب کچھ بند ہے۔'

یوں تو قومی شاہراہ پر معمول کی ٹریفک نہیں تاہم  ٹرک آتے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تنویر کے مطابق انہی ٹرکوں کی وجہ سے شاہراہ پر رونق لگی رہتی ہے۔

'جب کوئی میرے ڈھابےکو دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ چائے ہے؟ اور میں بتاتا ہوں کہ ہاں دستیاب ہے تو وہ انتہائی خوشی کا اظہار کرتا ہے اور چائے بہت شوق سے اور نفیس طریقے سے پیتا ہے۔'

تنویر کے ڈھابے پر پکوڑے بھی ملتے ہیں اور وہ روٹی کا انتظام بھی کرتے ہیں، جو چائے کے ساتھ بونس کی شکل میں ہوتی ہے۔  

لاک ڈاؤن نے جہاں دیگر کاروبار متاثر کیے ہیں وہیں قومی شاہراہوں پر کاروبار کرنے والوں کا روزگار بھی بند ہے کیوں کہ ان کا واحد ذریعہ آمدن یہاں سے گزرنے والی ٹریفک ہوتی ہے۔  

تنویر کے مطابق 'کرونا نے جہاں ایک خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے، وہاں ایک عام شخص کا روزگار بھی بری طرح متاثر ہے اور وہ کھینچ تان کے اپنا گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔' 

ٹرک ڈرائیوروں کے لیے یہ صورتحال انتہائی غیر معمولی ہے کیوں کہ انہوں نے کبھی قومی شاہراہ پر ہوٹلوں کو بند ہوتے نہیں دیکھا تھا۔  

سعید کے بقول 'یہ میری زندگی میں پہلی دفعہ ہے کہ ہمیں چائے کا بندوبست خود کرنا پڑ رہا ہے جو وقت کے ضیاع کے ساتھ ہمارے سفر کو بھی مزید طویل کردیتا ہے۔' 

سعید بتاتے ہیں کہ 'ہم نے رمضان اور عید کے دنوں میں بھی قومی شاہراہوں پر ہوٹل بند ہوتے نہیں دیکھے لیکن موجودہ صورتحال مختلف اور تشویش ناک ہے۔' 

سعید اور ان جیسے دوسرے ڈرائیور ان دنوں شاہراہوں پر ایسے ڈھابہ ہوٹلوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے چائے کا بندوبست اپنے پاس بھی کررکھا ہے تاکہ وہ سینکڑوں میل سفر کرنے کے دوران چست اور توانا رہیں۔

پھر بھی سعید کو یہ خوف لاحق ہے کہ کیا یہ سلسلہ کبھی ختم بھی ہوگا یا نہیں؟ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان