مصباح الحق کا قومی کرکٹ کو ایک اور 'تحفہ'

پاکستان ٹیم ٹیسٹ اور ون ڈے میں تو پہلے ہی چھٹے ساتویں نمبر کا سالوں سے طواف کررہی ہے، بس ایک ٹی ٹوئنٹی میں ہی کچھ اعزاز تھے وہ بھی چھن گئے۔

سری لنکا سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست اور آسٹریلیا سے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکستوں نے  کوچ  مصباح الحق کی اہلیت پر سوال کھڑے کر رکھے ہیں  (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی کی عالمی درجہ بندی میں اٹھائیس مہینوں تک حکمرانی کرنے کے بعد بالآخر چوتھے نمبر پر آگئی اور آسٹریلیا جو کافی عرصہ سے پاکستان کا تعاقب کر رہا تھا، نمبر ون کی پوزیشن پر براجمان ہوگیا ہے۔

پچھلے مہینوں میں کئی دفعہ ایسا لگا کہ پاکستان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی لیکن کبھی نیوزی لینڈ تو کبھی بھارت سے آسٹریلیا کی ایک دو شکستوں نے پاکستان کو نیچے نہیں گرنے دیا۔

ہر موڑ پر جب بھی بچے تو پاکستان کرکٹ کے ذمہ داران بغلیں بجاتے رہے کہ ہم اب بھی نمبر ایک ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ جس دن بھی گرے تو پھر بہت نیچے گریں گے۔

آئی سی سی کی جاری کردہ تازہ ترین رینکنگ کے مطابق آسٹریلیا 278 ریٹنگ پوائنٹس کے ساتھ اب پہلی پوزیشن پر قبضہ کر چکا ہے جبکہ نیوزی لینڈ دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان 260 ریٹنگ پوائیٓنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

کرونا (کورونا) کی عالمی وبا کے باعث چونکہ کھیلوں کے تمام مقابلے بند ہیں اس لیے پاکستان کو اب واپس اس سطح تک پہنچنے کے لیے شاید دو سال لگ جائیں، وہ بھی اس صورت میں اگر جیت کا تناسب اپنے سے بالا ٹیموں کے خلاف بڑھتا رہا۔

لیکن مستقبل قریب میں صرف ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ ہی ہے جس کا انعقاد بھی کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔

پاکستان کی اس تنزلی کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟

پاکستان ٹی ٹوئنٹی میں آغاز سے ہی ایک مضبوط ٹیم تھی اور دوسرے ہی ورلڈکپ کو جیت کر اس نے اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔ اس کے بعد بھی پاکستان کی کارکردگی اتنی بری نہ تھی لیکن ٹیم کو صحیح عروج سرفراز احمد کو کپتان بنانے کے بعد ملا جب پاکستان نے ان کے کپتان بنتے ہی جلد ہی فتوحات سمیٹنا شروع کردیں۔

سرفراز نے ٹیم میں ایک نئی جان ڈالی اور مختصر دورانیے کی کرکٹ میں تجربہ اور جوش دونوں کو باہم ملا کر درست انداز میں استعمال کیا، جس سے پاکستان ٹاپ پوزیشن پر پہنچ سکا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرفراز کی قیادت میں ٹیم کا یہ کامیابی کا سفر شاید پاکستان کرکٹ کے ذمہ داران کو پسند نہ آیا اور نئے خون کو آگے لانے کے پرانے بہانے کے ذریعے پہلے تو سرفراز اور دوسرے چند کھلاڑیوں میں اختلافات کے بیج بوئے، جس سے ٹیم اور سرفراز کی کارکردگی متاثر ہوئی اور پھر اس کو بنیاد بنا کر فارغ کردیا۔ کچھ نے سرفراز کی فٹنس کو ہدف بنایا تو کچھ ان کی وکٹ کیپنگ پر تنقید کرنے لگے۔

ایک ٹاپ پوزیشن کی ٹیم کو جس طرح تبدیلیوں کے نام پر کوچ مصباح الحق نے برباد کیا اس کا نتیجہ آج قوم کو ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں تنزلی کی صورت میں تحفے کے طور پر ملا ہے۔

پاکستان ٹیم ٹیسٹ اور ون ڈے میں تو پہلے ہی چھٹے ساتویں نمبر کا سالوں سے طواف کررہی ہے، بس ایک ٹی ٹوئنٹی میں ہی کچھ اعزاز تھے وہ بھی چھن گئے۔

آسٹریلیا کی ٹیم نے دوسال قبل بحران کا شکار ہونے کے بعد جس طرح کم بیک کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ بال ٹمپرنگ کے الزامات کے بعد بہترین کھلاڑیوں سے محرومی نے ان کے ذہنوں سے فتح کی محرومی نہیں چھینی اور کینگروز متحد ہوکر کمزور ٹیم سے طاقتور ٹیم بن گئے۔

لیکن انا پرستی نے ایک مضبوط پاکستان ٹیم کو تنزلی کا شکار کردیا۔ کوچ مصباح الحق جنہوں نے سلیکشن کے حقوق بھی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، ان کی نظر میں پاکستان کے سابق کامیاب کرکٹرز کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی، جو پچھلے کئی ماہ سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ سرفراز ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ ہے لیکن مصباح مصر ہیں کہ اگر کھیلے گا تو رضوان ہی وکٹ کیپر کھیلے گا چاہے ٹیم ہارتی رہے۔

بابر اعظم جیسے نوجوان بلے باز کو عجلت میں کپتان بنانا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں جن کی غلطیاں آسٹریلیا کے دورے میں نظر آئی تھیں۔

پاکستان ٹیم کی رینکنگ میں تنزلی سے شاید مصباح کو کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان اس وقت کرونا کی وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے اور کسی کی توجہ رینکنگ پر نہیں ہے لیکن کرکٹ کے ماہرین اس گراوٹ کو مزید بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

سری لنکا سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست اور آسٹریلیا سے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکستوں نے مصباح الحق کی اہلیت پر سوال کھڑے کر رکھے ہیں جو بنگلہ دیش اور سری لنکا سے ہوم ٹیسٹ سیریز میں جیتنے کے باوجود قائم ہیں۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا مصباح الحق کی سیلیکشن اور کوچنگ پر مستقبل میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ