مصباح الحق: ٹک ٹک سے کوچ تک کا سفر

سری لنکا کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز شاید اس معاملے میں زیادہ مددگار ثابت نہ ہو سکے لیکن اس سیریز سے یقینی طور پر مصباح کی بطور کوچ اور چیف سلیکٹر مہارت کا اور کسی حد تک ان کی آئندہ کی ترجیحات کا اندازہ ضرور ہو جائے گا۔

پاکستانی ٹیم کی سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں بدنامی کے بعد مصباح الحق کو پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی تو انہوں نےایک ایسی ٹیم کو دوبارہ بنانے اور سر اٹھا کر کھیلنے میں  کردار ادا  کیا جو سکینڈلز اور بری کارکردگی کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھی۔(اے ایف پی)

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2007 کے فائنل میں وہ تاریخی لمحات کون بھول سکتا ہے جب پوری پاکستانی قوم انضمام الحق کے بعد خالی ہونے والی جگہ پر ٹیم میں آنے والے مصباح الحق سے چھکے کی امید کر رہی تھی اور انہوں نےایسا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جوگندر شرما کی گیند تھی کہ بجائے گراؤنڈ سے باہر جانے کے سری سانتھ کے ہاتھوں میں جا پہنچی اور وہ آؤٹ ہو گئے۔

اس میچ اور اس ٹورنامنٹ میں مصباح الحق نے اچھی بلے بازی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن صرف اس ایک شاٹ کی وجہ سے ان کی تمام کارکردگی پس پشت چلی گئی۔

اپنے دھیمے انداز اور اولڈ سکول بلے بازی سٹائل کی وجہ سے مصباح الحق کو کرکٹ شائقین نے ’ٹک ٹک‘ کا خطاب دے ڈالا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ورلڈ کپ 2011 میں موہالی میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں مصباح ایک ایسے وقت میں بلے بازی کرنے آئے جب پاکستانی ٹیم قدرے مشکلات کا شکار تھی لیکن زیادہ گیندیں روکنے اور سلو رن ریٹ کے باعث پاکستان کے لیے میچ جیتنا ناممکن ہو گیا اور مصباح پر ہمیشہ کے لیے ٹک ٹک کا ٹھپہ لگ گیا۔

ٹک ٹک کا یہ داغ اتنا گہرا تھا کہ 2014 میں ابوظہبی میں آسٹریلیا کے خلاف کی جانے والی تیز ترین ٹیسٹ سینچری بھی اسے نہ دھو سکی۔ مصباح الحق نے یہ تیز ترین ٹیسٹ سینچری صرف 56 گیندوں پر بنا کر ویسٹ انڈین لیجنڈ سر ویون رچرڈز کا ریکارڈ برابر کیا۔

پاکستانی ٹیم کی سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں بدنامی کے بعد مصباح الحق کو پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سونپی گئی تو انہوں نےایک ایسی ٹیم کو دوبارہ بنانے اور سر اٹھا کر کھیلنے میں کردار ادا کیا جو سکینڈلز اور بری کارکردگی کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار تھی۔

مصباح کی کپتانی میں پاکستان نے انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو شکست دی اور پھر انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دے کر اس تاثر کی نفی کر دی کہ پاکستانی ٹیم صرف متحدہ عرب امارات میں ہی اچھا کھیل پیش کر سکتی ہے۔

مصباح الحق کو بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان کہا جا سکتا ہے لیکن چیف سلیکٹر اور کوچ کا ہما ان کے سر سجنے کے بعد ان سے وابستہ کی جانے والی امیدیں کس حد تک درست ہیں؟ اور اگر ان امیدوں کے پورے ہونے میں کوئی مشکل آتی ہے تو پھر تمام تر تنقید کا سامنا کیا مصباح اسی عزم کے ساتھ کریں گے جیسا وہ اپنی کپتانی اور بلے بازی کے حوالے سے کرتے تھے؟

دیکھا جائے تو پاکستانی ٹیم اس وقت کسی بحرانی کیفیت سے نہیں گزر رہی، کپتان سرفراز احمد جنہیں مصباح الحق کے بعد کپتان بنایا گیا ان کی کرسی مضبوط اور محفوظ ہے۔ حال ہی میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم اگر بہت اچھا نہیں کھیلی تو یقیناً بہت برا بھی نہیں کھیلی۔ مصباح الحق نے اپنی زیادہ تر کرکٹ ڈومیسٹک سرکٹ میں کھیلی ہے۔ انہیں ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود مسائل کا اچھے سے اندازہ ہے۔ وہ ڈومیسٹک کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ذاتی طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان سے سب سے زیادہ امیدیں یہی کی جا رہی ہیں کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

سری لنکا کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز شاید اس معاملے میں زیادہ مددگار ثابت نہ ہو سکے لیکن اس سیریز سے یقینی طور پر مصباح کی بطور کوچ اور چیف سلیکٹر مہارت کا اور کسی حد تک ان کی آئندہ کی ترجیحات کا اندازہ ضرور ہو جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل