کیا پاکستان اپنے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کر سکتا ہے؟

سول ایوی ایشن آرڈیننس 1982 کے تحت ملکی ایئر پورٹس کی نجکاری یا انہیں آؤٹ سورس نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم وزیراعظم نے اس معاملے پر سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔

سول ایوی ایشن آرڈیننس 1982 کے تحت ملکی ایئر پورٹس کی نجکاری یا انہیں آؤٹ سورس نہیں کیا جا سکتا (اے ایف پی)

وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے گذشتہ اجلاس میں ملک کے بڑے ایئر پورٹس آؤٹ سورس کرنے کے معاملے پر غور کرنے کے بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی، جو اس حوالے سے سفارشات تیار کرے گی۔

تاہم سول ایوی ایشن آرڈیننس 1982 کے تحت ملکی ایئر پورٹس کی نجکاری یا انہیں آؤٹ سورس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سول ایوی ایشن نیم خود مختار ادارہ ہے، اس لیے یہ اختیار سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ہے۔

دوسری جانب یہ معاملہ 2018 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر سول ایوی ایشن حکام اور قانونی ماہرین سے بات چیت کر کے حقائق جاننے کی کوشش کی۔

قانونی ماہر اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے سے متنازع تو ہو سکتا ہے لیکن قانونی طور پر اتنا فرق نہیں پڑے گا۔

'سول ایوی ایشن آرڈیننس 1982 کے مطابق حکومت ایئر پورٹس کو کسی بھی سروس کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کے لیے نہیں دے سکتی لیکن اگر حکومت آرڈیننس میں ترمیم کر لیتی ہے تو پھر رکاوٹ نہیں رہے گی۔'

تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق: 'اگر حکومت آرڈیننس میں ترمیم کرکے آؤٹ سورس کی راہ ہموار بھی کرتی ہے تو پھر بھی سکیورٹی رسک اپنی جگہ موجود ہے۔'

انہوں نے بتایا 'دنیا میں دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ایئرپورٹس مکمل طور ہر پرائیویٹ ہیں اور وہ دفاعی نظام کے لیے استعمال نہیں ہوتے لیکن پاکستان میں ان کا استعمال مشترکہ ہے، جس کی وجہ سے ایئرپورٹ یا سروسز کو آؤٹ سورس کرنے میں سکیورٹی رسک کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔'

عہدے دار کے مطابق وزیراعظم کے ایک قریبی مشیر جن کو ایوی ایشن کا علم نہیں لیکن وہ ایئر پورٹ آؤٹ سورس کرنے کے حامی ہیں۔

مذکورہ عہدے دار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان فوج بھی ایئرپورٹس کو غیر ملکی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ مشترکہ استعمال کی وجہ سے دفاعی معاملات بھی رسک پر آ سکتے ہیں۔

ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کی بحث کب شروع ہوئی؟

2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کی بات شروع ہوئی تھی۔

اس وقت فاروق رحمت اللہ سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور اس تجویز پر اعتراضات سامنے آنے کے بعد انہوں نے اسے سکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ 'پاکستانی ایئرپورٹس کے ریڈار سسٹم افواج پاکستان کے ساتھ مشترکہ استعمال میں ہیں اور اگر جنگی حالات ہوتے ہیں تو ایئر پورٹس کے لینڈنگ اور ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنا پاکستان کے لیے سکیورٹی رسک ہے،' یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ التوا میں چلا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2017 میں نواز شریف کے دور حکومت میں ایک بار پھر بڑے ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کی باز گشت ہوئی اور بولی دہندگان میں قطر اور ترکی کی ایک، ایک کمپنی شامل تھی۔

تاہم سول ایوی ایشن کی ملازمین یونین نے لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کرتے ہوئے استدعا کی کہ سول ایوی ایشن آرڈنینس کے مطابق ایئر پورٹس غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے نہیں کیے جا سکتے لہٰذا حکومت اور سول ایوی ایشن کو اس فیصلے سے روکا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو نوٹس جاری کیے تو ایوی ایشن حکام اور حکومت نے عدالت عالیہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے، جس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی تھی۔

2018 میں حکومت ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے پھر فعال ہوئی تو سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ملازمین یونین کے صدر ایاز بٹ نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو خط لکھا جس پر سابق چیف جسٹس نے نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا، لیکن اس کے بعد سے آج تک یہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا۔

سول ایوی ایشن کی ملازمین یونین کے تحفظات

سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ملازمین یونین کے صدر ایاز بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سوال اٹھایا کہ ابھی ان کی پہلی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا تو حکومت عدالت میں زیر سماعت معاملے پر کیسے ایکشن لے سکتی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ 'لاہور ہائی کورٹ نے بھی حکم امتناع دیا تھا اور جب سپریم کورٹ میں درخواست دی تو حکومت نے جواب جمع کرایا لیکن اُس کے بعد سے حکومت اور عدالت دونوں خاموش ہیں۔'

ایاز بٹ کے مطابق: 'ایوی ایشن پالیسی میں لکھا ہوا ہے کہ چھوٹے ایئرپورٹس، جو خسارے میں ہیں اُن کو آؤٹ سورس کر سکتے ہیں لیکن حکومت منافع بخش ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنا چاہتی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن کے 11 ہزار کے لگ بھگ ملازمین ہیں اور اسلام آباد ایئر پورٹ کے دو ہزار ملازمین ہیں، اگر ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کر دیا گیا تو غیرملکی کمپنی اپنے ملازمین رکھے گی جس کی وجہ سے سول ایوی ایشن کے ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔'

ایاز بٹ نے بتایا کہ سول ایوی ایشن سب سے زیادہ ریوینیو پیدا کر رہا ہے اور ایف بی آر کو سب سے زیادہ ٹیکس بھی سول ایوی ایشن ادا کر رہا ہے۔

'گذشتہ برس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا تو سیکرٹری ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ ابھی آؤٹ سورس کرنے کا کوئی پلان نہیں اور ملازمین کی نوکریاں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔'

ایاز بٹ نے مزید کہا کہ حکومت کے اس موجودہ بیان کے تناظر میں سول ایوی ایشن ایمپلائز یونین دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں بذریعہ میسج سوالات بھیجے لیکن ان کا کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان