ارطغرل کے بارے میں علما کا فتویٰ اور ہمارے دس ’منطقی‘ سوالات

ارطغرل غازی کے بارے میں علما نے فتویٰ دیا ہے کہ اسے دیکھنا جائز نہیں۔ اس پر ہمارے ذہن میں چند سوال اٹھے ہیں، جو پیش خدمت ہیں۔

فتوے کے مطابق بعض جگہوں پر مرد و عورت کے اختلاط کو اس طرح پیش کیا گیا ہے، جس سے عشقیہ انداز اور مجازی محبت کا اظہار ہوتا ہے(تیکدین فلم)

کراچی میں قائم دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مشہورمدرسے جامعہ الرشید کے علما نے فتویٰ دیا ہے کہ پی ٹی وی پر چلنے والے ترک ڈرامے ارطغرل غازی کو دیکھنے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔

یہ فتویٰ انھوں نے ایک اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کے فتوے کے جواب میں دیا، جس میں انھوں نے اس ڈرامے کو دیکھنے کے جواز کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ فتویٰ جامعہ الرشید کے دارالافتا کے لیٹر پیڈ پر جاری کیا گیا ہے اور فیس بک پر بہت سے لوگوں نے اسے شیئر کیا۔

اس فتوے کا لب لباب یہ ہے کہ اگرچہ اس ڈرامے میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی تہذیب و تاریخ دکھائی گئی ہے اور اس کے دیکھنے سے مسلمان نوجوانوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت جاننے کا موقع ملتا ہے لیکن چوں کہ:

الف: ڈرامے میں جگہ جگہ بے پردہ خواتین کا کردار پیش کیا گیا ہے، جس سے بدنظری کا ہونا تقریباً یقینی ہے۔

ب: اس میں بعض جگہوں پر مرد و عورت کے اختلاط کو اس طرح پیش کیا گیا ہے، جس سے عشقیہ انداز اور مجازی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

ج: ڈرامے کے شروع میں خصوصاً اور پورے ڈرامے میں عموماً موسیقی اور ساز چلتا رہتا ہے، جب کہ موسیقی اور ساز شریعت کی نظر میں حرام ہیں۔

ڈراما دیکھتے وقت چوں کہ مذکورہ بالا مفاسد سے بچنا عملی طور پر مشکل ہے،اس لیے ارطغرل نامی ڈرامہ دیکھنے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ مذکورہ علمائے دین و مفتیان شرع متین نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انھوں نے یہ فتویٰ ارطغرل غازی کو پوری طرح دیکھ کر دیا یا بغیر دیکھے ہی دوسروں سے سن سنا کر جڑ دیا ہے۔

ہم چوں کہ ایک سیدھے سادھے مسلمان ہیں اور شریعت کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ اس ملک میں بسنے والے علمائے کرام کی اکثریت شعرو ادب اور فنون لطیفہ کے بارے میں جانتی ہے۔

تاہم منطق جو، ان کے درسِ نظامی کا ایک لازمی حصہ ہے، اس میں ہم نے بھی تھوڑا بہت ’منہ مار‘ رکھا ہے، لہٰذا ہم ان سے چند سیدھے سادے منطقی سوالات عرض کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال نمبر ایک: اگر انھوں نے یہ ڈراما خود نہیں دیکھا اورمحض دوسروں سے اس کے بارے میں سن سنا کر یہ فتویٰ جاری کیا ہے تو کیا فرماتے علمائے دین و مفتیانِ شرع متین بیچ اس مسئلے کے کہ آیا کسی مسئلے کی پوری طرح چھان پھٹک کیے بغیر اس کے شرعی جواز یا عدم جواز کا فتویٰ جاری کیا جا سکتا ہے؟

سوال نمبر دو: اگر انھوں نے یہ فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اکٹھے یا الگ الگ اپنے کمروں میں بیٹھ کر یہ ڈراما بغور دیکھا تو کیا وہ اس دورانیے میں، ان مفاسد سے ’عملی طور‘ پر بچے رہے ، جن کے بارے میں انھوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ان سے بچنا عملی طور پر مشکل ہے؟

سوال نمبر تین: اگر نہیں بچ سکے اور وہ خود ان مفاسد کا شکار ہوئے جن سے بچنا ان کے نزدیک ہر مسلمان پر فرض ہے تو خود ان کے بارے میں فقہ کیا کہتی ہے؟ زیادہ واضح لفظوں میں، ایسے اشخاص جو خود مفاسد کا شکار ہوئے ہوں، کیا وہ انھی مفاسد کے بارے میں فتویٰ دینے کے مجازہیں؟

سوال نمبر چار: بالفرض محال اگر وہ ان مفاسد سے بچ نکلے تھے تو پھر وہ دوسروں کے بارے میں یہ گمان کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ یہ ڈراما دیکھتے ہوئے اِن مفاسد سے ’عملی طور پر‘ نہیں بچ سکیں گے؟ گمان کی پیروی کرنے والوں کے بارے میں ان کی فقہ کیا کہتی ہے اس کی وضاحت درکار ہے؟

سوال نمبر پانچ: یہ بات تو اس فتوے سے واضح ہو گئی ہے کہ ڈرامے میں مرد و زن کے اختلاط کو اس طرح پیش کرنا کہ اس سے عشقیہ انداز میں مجازی محبت کا اظہار ہو، خلاف شرع ہے اور جوںہی ایسا ڈراما شروع ہو ٹی وی سے منہ موڑ لینا چاہیے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کا اطلاق صرف ڈرامے تک محدود ہے یا اگر کوئی حقیقی زندگی میں بھی یہ ’کردار‘ نبھائے تو اس سے بھی منہ موڑ لینا چاہیے؟

ممکن ہے یہ سوال آپ کو غیر متعلقی لگے۔ لیکن لگے ہاتھوں اس کی بھی وضاحت فرما دیجیے تاکہ ہم ان عثمانی خلفا کے بارے میں بھی کلیئر ہو جائیں، جن کے ایک جد امجد (ارطغرل) کے کردار کو بنیاد بنا کر یہ ڈراما پیش کیا گیا ہے۔ کیوں کہ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھ رکھا ہے کہ خلافت عثمانیہ کے بیشتر خلفا کی شامیں موسیقی کی تال پر تھرکتے ’مخلوط‘ جسموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی تھیں اور ان میں سے بیشتر کسی نہ کسی غیر محرم کی زلف گرہ گیر کے اسیر بھی رہےاور ساری زندگی نکاح کیے بغیر ان سے ’مجازی محبت‘ کا والہانہ اظہار کرتے رہے۔

سوال نمبر چھ :کیا کسی ڈرامے میں عورت اور مرد کے اختلاط کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس سے مجازی محبت کی بجائے ’عشق حقیقی‘ کا اظہار ممکن ہو؟ اگرممکن ہے تو اس کی وضاحت کر دیجیے۔

ہمارے خیال میں یہ ڈرامے کی دنیا میں ایک بالکل نئی تکنیک ہو گی اور اس سے پاکستان اور ترکی سمیت پوری مسلم امہ کے ڈراما نگار استفادہ کر سکیں گے۔ مستقبل میں چوں کہ ہمارا بھی ڈرامے کی فیلڈ میں آنے کا ارادہ ہے اس لیے یہ تکنیک ذاتی طور پر راقم السطورکے لیے بھی بہت کارآمد ثابت ہو گی۔

سوال نمبر سات: کیا ارطغرل غازی کو چھوڑ کر پاکستان کے سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر چلنے والے دوسرے ڈراموں میں عورت کو پورے شرعی لباس میں دکھایا جاتا ہے اور کیا ان میں عورت اور مرد کے اختلاط کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے مجازی محبت کا اظہار نہیں ہوتا؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں بھی براہِ کرم چند ایسے ڈراموں کے نام فراہم کر دیجیے تاکہ ہم اپنا ایمان تازہ کر سکیں۔

سوال نمبر آٹھ: مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے (بالفاظ دیگر فتویٰ) ہے جنہوں نے اس ڈرامے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور جس کے جواب میں آپ نے عدم جواز کا فتویٰ دیا؟ ان کے ’جوازی فتوے ‘ کی وجہ سے کروڑوں لوگ اس ڈرامے پر ’ٹوٹ پڑے‘، یوں قعرِ گمراہی میں جا پڑے۔

اس گمراہی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ڈرامے کو نشر کرنے والاسرکاری ٹی وی چینل ریٹنگ میں راتوں رات تمام پاکستانی چینلز سے بازی لے گیا۔ یہاں تک کہ ترکی والوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اتنی سرعت سے ترکی میں بھی اس ڈرامے نے مقبولیت حاصل نہیں کی تھی۔

ہماری ذاتی رائے میں اس مقبولیت کے پیچھے مفتی ابو لبابہ صاحب کے جوازی فتوے ہی کا ہاتھ ہے۔ سو ان کی شرعی حیثیت واضح ہونا ضروری ہے۔

سوال نمبر نو: عمران خان صاحب کی ’ریاست مدینہ‘ کے سرکاری چینل نے اس ڈرامے سے جو کروڑوں روپے کمائے انھیں یہیں رہنے دیا جائے یا منی لانڈرنگ کے ذریعے ترکی بدر کر دیا جائے؟

سوال نمبر دس: جن لوگوں نے یہ ڈراما آپ کے فتوے سے پہلے دیکھا اور وہ جو اس فتوے کے بعد دیکھیں گے، دونوں کی سزا ایک جیسی ہوگی یا پہلے والوں کوکچھ رعایت مل سکتی ہے؟

یہ سوال ذاتی طور پر ہمارے لیے بہت اہم ہے کیوں کہ آپ کا یہ فتویٰ ہماری نظروں سے اس وقت گزرا، جب ہم یہ ڈراما تقریباً پورا دیکھ چکے تھے۔ پی ٹی وی پر چلنے سے بھی بہت پہلے۔

سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن چوںکہ 10 کا عدد ہمارے ہاں متبرک سمجھا جاتا ہے، سو انہی 10 سوالوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

آخری التماس کہ جواب دیتے ہوئے چہرے کو خوش باش رکھیے گا اور اس پر ملال کی کوئی جھلک نہ لایے گا، بصورت دیگر ہم بھی اپنے دوست خورشید ربانی کی طرح ’کف ملال‘ ملتے رہ جائیں گے (خورشید ربانی کے شعری مجموعے کا نام کف ملال ہے) اور ظفر اقبال کا یہ شعر ساری زندگی ہمارے ضمیر کو کچوکے لگاتا رہے گا۔

جواب اس نے دیا ہے ملال کرتے ہوئے
ہمیں بھی شرم نہ آئی سوال کرتے ہوئے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ