پاکستان کا نظام انصاف تقریباً آخری سانسیں لے رہا ہے۔ عام عوام کا اب اس نظام پر کسی قسم کا اعتماد باقی نہیں رہا۔ اسی لیے دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ اپنے قانونی مسائل کے حل کے لیے سست اور مہنگے نظام انصاف کی بجائے متبادل راستوں کو تلاش کرتے ہیں جن میں بعض اوقات قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا بھی شامل ہوتا ہے۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق تقریباً 19 لاکھ مقدمے مختلف عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ان میں کئی مقدمات ایسے ہیں جو تقریباً 25 سال سے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی طرح پانچ ہائی کورٹس میں 293947 مقدمات اور سپریم کورٹ میں 38539 جبکہ نچلی عدالتوں میں تقریباً 16 لاکھ سے زیادہ مقدمے سالوں سے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
حال ہی میں ہماری عدالتوں نے شاید ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا جب سو سال پرانے مقدمے کا فیصلہ جنوری 2018 میں ہماری سپریم کورٹ نے سنایا۔ یہ مقدمہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا سپریم کورٹ میں 2005 میں پہنچا اور پھر اس معمولی زمین کے تنازعے پر انصاف مہیا کرنے میں سپریم کورٹ کو تقریباً 13 سال لگے۔
بین الاقوامی طور پر یہ صورت حال ہمارے لیے مزید شرمندگی کا باعث ہے جب پاکستان ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی قانون کی حکمرانی کے انڈکس میں مسلسل آخری نمبروں میں اپنی جگہ پا رہا ہے۔ اس کی حالیہ رپورٹ میں میں 126 ممالک میں پاکستان 117 ویں پوزیشن پر، زمبابوے سے نیچے اور بولیویا اور افغانستان سے ذرا اوپر ہے۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کے ایک سروے کے مطابق انٹرویو کیے جانے والوں میں سے 82 فیصد متاثرین نے پچھلے دو سالوں میں قانونی مسائل کا سامنا کیا لیکن صرف 14 فیصد نے نظام انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا۔ جنہوں نے عدالتوں کا راستہ اختیار کیا ان کے بھی کچھ اچھے تجربات نہیں تھے۔ ان میں سے بیشتر فیصلوں میں تاخیر سے ذہنی دباؤ اور اس سے جڑے امراض کا شکار ہوئے۔
انصاف کی فراہمی میں اس تاخیر کا سبب کسی حد تک عوام اور زیادہ حد تک عدلیہ اور وکلا ہیں۔ ہمارے ہاں غیرسنجیدہ اور غیرضروری مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے عدالتی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ صرف فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ اہم مقدمات کی سنوائی میں بھی دیر ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ان غیرضروری مقدمات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں کے بےتحاشہ مالی وسائل کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ مختلف حکومتوں نے اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے ہیں لیکن اس کے باوجود ان غیرضروری اور غیرسنجیدہ مقدمات میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقدمات کے فیصلوں کی تاخیر کی ایک بہت بڑی وجہ ججوں کے فیصلہ تحریر کرنے میں تاخیر اور غیرضروری طور پر مقدمات کو طوالت دینا بھی شامل ہے۔ کچھ حد تک ججوں کی کم تعداد بھی اس طوالت کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن اوسطاً ججوں کے مقدمات سننے اور فیصلہ کرنے کا دورانیہ پاکستان میں بہت طویل ہے۔ اسی طوالت کا سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے نوٹس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں 25 سال کے نامکمل مقدمات کا فیصلہ کروایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں التوا کی ایک بہت بڑی وجہ عدلیہ کی اپنی سست روی ہے۔
عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نچلی عدالتوں میں جج غیرضروری اور غیرسنجیدہ مقدمات میں درخواست گزار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے جس سے اس قسم کی مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی۔
ججوں کی موسم گرما میں طویل تعطیل بھی مقدمات میں تاخیر کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ تعطیل برطانوی راج کی ایک نوآبادیاتی روایت ہے۔ برطانوی راج میں ججوں کو دو مہینوں کی چھٹی اس لیے دی جاتی تھی کہ انہیں انگلستان سال میں ایک مرتبہ جانے کی اجازت ہوتی تھی اور سفر میں دس سے پندرہ دن لگ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ہندوستان کے شدید گرم موسم میں عدالتی کام جاری رکھنا کافی مشکل ہوتا تھا۔
پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث بند پڑی رہتی ہیں۔ عدالتوں سے منسلک سرکاری ملازمین کو حاصل یہ سہولت ملک میں کسی دوسرے ادارے کو حاصل نہیں ہے۔ موجودہ دور کی آسانیوں کے باعث اس نوآبادیاتی روایت کو ختم کرکے زیر سماعت مقدمات کی تعداد میں بہت حد تک کمی کی جاسکتی ہے۔
ججوں کی غیرمتعلقہ معاملات میں دلچسپی انصاف کی فراہمی میں مزید تاخیر پیدا کرتی ہے۔ چیف جسٹزز افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کا تقریباً سارا وقت اس قسم کے معاملات میں گزرا۔ انہیں انصاف مہیا کرنے کے علاوہ ہر اس معاملہ میں آگے آگے دیکھا گیا جس سے ان کی شہرت میں اضافہ ہو سکے۔ بہت سارے ججوں کی نااہلی اور ان کی اخلاقی باختگی کی وجہ سے انصاف کا شعبہ اور فیصلے بھی متنازع ہوئے۔
مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں تاخیر میں وکلا کا بھی اہم اور افسوسناک کردار رہا ہے۔ ان کے معاشی مفادات کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر ان کے لیے سودمند ہوتی ہے۔ اس لیے وکلا کی ایک بڑی تعداد مقدمات میں التوا کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔
وہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر یا عدالتوں کے عملے کو رشوت دے کر مقدمات کو طول دیتے ہیں۔ نچلی عدالتوں میں وکلا جب چاہتے ہیں وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، ضروری کاغذات جان بوجھ کر دیر سے جمع کراتے ہیں اور جب چاہیں التوا حاصل کر لیتے ہیں۔ اکثر چھوٹی چھوٹی وجوہات کی بنیاد پر وکلا تنظیمیں ہڑتال کر کے عدالتوں میں مقدمات میں التوا کرا دیتی ہیں۔
وکلا اصلاحات کا راستہ بھی روکتے ہیں۔ جب حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے مقدمات کی نگرانی اور بہتری کے لیے نظام لانے کی کوشش کی تو اسے وکلا تنظیموں کے احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا۔
موجودہ نظام انصاف سے عوامی غصہ، اس کی سست روی اور ناکامی کو بھانپتے ہوئے سابق چیف جسٹس کھوسہ نے ہر ضلع میں ماڈل کورٹس کے قیام کا اعلان کیا جو کہ یقیناً ایک قابل ستائش عمل تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ماڈل کورٹس کے باوجود مقدموں کی تعداد میں کمی یا انصاف مہیا کرنے کی رفتار میں کوئی خاص تیزی نہیں آئی ہے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کو اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اصلاح کا سلسلہ اپنے آپ سے شروع کرنا چاہیے۔ نچلی عدالتوں کی بری کارکردگی کی ذمہ داری بھی اعلیٰ عدلیہ پر آتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 203 ہائی کورٹس کو اختیار دیتا ہے کہ وہ نچلی عدالتوں کے کام کی نگرانی کریں۔ یہ بہت بڑی آئینی طاقت ہے جس کے ذریعے نچلی عدالتوں میں انتظامی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا تھا مگر بدقسمتی سے ہائی کورٹس اس معاملے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کو افغانستان میں ایک غیرفعال نظام انصاف نے بھی اپنے قدم جمانے کا موقع دیا۔ ہم نے سوات میں یہی دیکھا جب پاکستانی طالبان نے ہمارے فرسودہ اور ناکام نظام انصاف کو بنیاد بنا کر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا اور پھر پوری وادی پر قبضہ کر لیا۔ بہت ساری وجوہات کے علاوہ اسی نظام انصاف کی ناکامی کی وجہ سے سوات کے عوام کو ایک بہت بھاری جانی و مالی قیمت ادا کرنا پڑی۔
اگر ہم نے انصاف کے نظام میں جلد بہتری نہیں لائی تو ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہوں گے جس میں آپ اپنے دشمنوں کو بھی عدالتوں میں مشکلات سے دوچار دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں نظام انصاف کے خلاف عوام کے غصے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ یہ غصہ کوئی پرتشدد شکل اختیار کر لے۔