کیا تعلیم کا مستقبل ہوم سکولنگ ہے؟

لاہور کی امبر بتول اپنے بیٹے موسیٰ کو ہوم سکول کر رہی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ کبھی اپنے بچے کو سکول نہیں بھیجیں گی اور ان کی تعلیم و تربیت گھر پر ہی کریں گی۔

آج کل کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دنوں میں ہوم سکولنگ کا لفظ اکثر سنائی دے رہا ہے۔ سبھی کے بچے گھروں پر ہیں، سکول بند ہیں اور والدین اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بچوں کو گھروں پر ہی تعلیم دے رہے ہیں مگر زیادہ تر لوگ سکول کا نصاب ہی پورا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کیا ہم اسے ہوم سکولنگ کہیں گے یا ہوم سکولنگ کچھ اور ہے؟ یہی جاننے کی کوشش میں ہم نے کچھ لوگوں سے بات کی تو ہماری ملاقات ہوئی لاہور کی رہائشی امبر بتول سے جو اپنے ساڑھے چار سالہ بیٹے موسیٰ کو ہوم سکول کر رہی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ کبھی اپنے بچے کو سکول نہیں بھیجیں گی اور ان کی تعلیم و تربیت گھر پر ہی کریں گی۔

ہوم سکولنگ کا فیصلہ ہی کیوں؟

امبر بتاتی ہیں:  'موسیٰ کی  سکولنگ کا فیصلہ ہمارا سکولنگ سسٹم سے اختلاف کی بنیاد پر تھا کیونکہ پاکستان کا سکولنگ سسٹم اس مثال جیسا ہے کہ جس میں ایک بندر اور ایک مچھلی کو درخت پر چڑھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں ہر بچے کو کامیاب ہونے   یا کچھ بھی سیکھنے کے لیے انفرادی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو سکول میں نہیں ملتی کیونکہ جب آپ تھوک کے حساب سے تعلیم بیچ رہے ہوتے ہیں، ایک کاروبار کے طور پر ، تو آپ کبھی بھی بچے کو وہ انفرادی توجہ نہیں دے سکتے ۔ یہ کام والدین ہی کر سکتے ہیں اور اس طرح کی تعلیم گھر کے علاوہ بچے کو کہیں بھی نہیں مل سکتی۔'

کیا ہوم سکولنگ کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے؟

امبر کے خیال میں ٹرینڈ بڑھ رہا ہے خاص طور پر کرونا وبا کے بعد سے تو والدین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ گھر پر پڑھائی زیادہ بہتر طریقے سے ہو جاتی ہے۔

امبر نے بتایا کہ وہ بیس سے زیادہ ایسی ماؤں کو جانتی ہیں جو اپنے بچوں کو ہوم سکول کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی سائٹس خاص طور پر فیس بک پر بھی انڈپینڈنٹ اردو کی نظر سے بہت سے ایسے گروپس گزرے جو ہوم سکول کرنے والے والدین نے بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں اراکین ہوم سکولنگ کے حوالے سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ریسورس میٹیریل بھی شئیر کرتے ہیں۔

ہوم سکولنگ کا نصاب کیسے ترتیب دیا جائے؟

امبر بتول ایک سٹے ایٹ ہوم ماں ہیں اور آرکیالوجی میں ایم فل کی ڈگری بھی رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر ڈیجیٹل مارکیٹر ہیں۔

امبر نے بتایا کہ ہوم سکولنگ کے شروع میں وہ کافی کنفیوز تھے اس لیے انہوں نے انٹرنیٹ سے دیکھ کر اپنے بیٹے کے لیے ایک تعلیمی نصاب تیار کیا لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ اگر انہوں نے اپنے بیٹے کو سکولنگ سسٹم کے طرز پر ہی پڑھانا ہے تو اسے سکول ہی کیوں نہ بھیج دیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: 'ہم اسے ایسی تعلیم دینا چاہتے تھے جس میں اسے مزا آئے اور وہ خوش رہے۔ وہ کھیلے کودے، سوال پوچھے، اور ہمیں اس کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہ کرنی پڑے جیسا سکولوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے پھر ہم نے وائلڈ سکولنگ اور ایکٹیوٹی بیسڈ لرننگ کو مناسب سمجھا۔'

انہوں نے مزید کہا: 'اس طریقہ تعلیم میں  ہم بچوں کو قدرت کے قریب کرتے ہیں کہ وہ گھومیں پھریں قدرت کو دریافت کریں، خود سے اپنے لیے پڑھنے کا میٹیریل تلاش کریں اور پھر وہ ہم سے سوال پوچھیں اور ان سوالات کی بنیاد پر وہ سیکھیں۔ یہ سیکھ ساری زندگی ان کے ذہن میں رہ جاتی ہے۔ ہم ہفتہ میں ایک مرتبہ یا مہینے میں دو مرتبہ موسیٰ کو قدرت کے بہت قریب لے کر جاتے ہیں  جیسے جنگلوں میں دریاؤں پر، یا پھر کیمپنگ اور اس طرح وہ  بہت کچھ ایسا سیکھ چکا ہے جو اس کی عمر کے بچے سکول میں رہتے ہوئے نہیں سیکھ پائے۔'

امبر کہتی ہیں کہ اس سب میں انہیں  خود سے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتا۔ 'سوالات موسیٰ کی طرف سے آرہے ہوتے ہیں۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں ہمیں معلوم ہوتا ہے اور نہیں ہوتا تو ہم ان کی لائبریری، جس میں یا تو ایکٹیویٹی بکس ہیں یا پھر وہ کتابیں  جو بہت مزے کی رنگین اور کہانیوں سے بھری ہیں، ان سےمدد لیتے ہیں۔'

ہوم سکولنگ میں دن کا معمول کیا ہوتا ہے؟

امبر نے بتایا کہ موسیٰ کو گھر پر پڑھانے کے لیے کوئی خاص معمول نہیں ہے بلکہ 'وہی معمول اختیار کرتے ہیں جو موسیٰ کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں وہ جو کھیل کھیلنا چاہ رہے ہوں یا سٹوری بکس، ایکٹیویٹی بکس وغیرہ ، ہم ان ہی کے اوپر زیادہ کام کرتے ہیں۔ اس میں کہیں پر بھی ہم ان پر کچھ مسلط نہیں کرتے یا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں آجائیں۔'

ہوم سکولنگ کے فیصلہ پر کیسے ردعمل کا سامنا ہوا؟

موسیٰ کی والدہ کہتی ہیں: 'جب ہم نے ہوم سکولنگ کا فیصہ کیا تو میرے بہت سے رشتہ دار اور دوستوں نے اسے ہماری غلطی کہا لیکن ہم اپنے فیصلے پر قائم رہے اور آج وہ سبھی لوگ جو شروع میں اعتراض کر رہے تھے آج وہ ہم سے ہوم سکول ریسورسز اور ٹیکنیک کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔'

کیا ہوم سکولنگ کے لیے والدین کا بہت زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے؟

امبر کہتی ہیں کہ وہ بہت سی ایسی کم تعلیم یافتہ ماوں کو جانتی ہیں جو اس لیول پر ہیں کہ وہ بچوں کی بات سمجھ سکتی ہیں اور انہیں اپنی بات سمجھا سکتی ہیں۔ 'ان کے اندر وہ ذہانت دیکھی ہے کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی نے پی ایچ ڈی ہی کیا ہو تو وہ بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں۔'

ہوم سکولنگ والے بچے ڈگری کیسے لیں گے؟

ان کا کہنا تھا: 'میں اور میرے شوہر اس بات کو ہی نہیں مانتے کہ ڈگری کی زندگی میں کوئی اہمیت ہے، خاص طور پر جو ڈگری ہمیں پاکستان سے ملتی ہے اس کی کہیں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ موسیٰ ایسی تعلیم لیں  جس میں وہ ہر چیز کو سمجھیں اور جانیں نہ کہ وہ اس لیے تعیم لیں کہ ا نہیں کسی  خاص امتحان میں بیٹھنا ہے۔'

انہوں نے مزید کہا: 'میرے خیال میں امتحانات بچوں کے لیے صرف ذہنی دباؤ کو بڑھانے کی مشین ہیں۔'

'میرے خیال میں اس طریقہ تعلیم میں صرف آپ کا بچہ نہیں سیکھ رہا بلکہ ماؤں کو بھی ساتھ ساتھ سیکھنا ہے۔ جس طرح میرا بچہ ایک لیول آگے جاتا جائے گا مجھے بھی اس سے ایک لیول آگے جانا پڑے گا اور سیکھنا پڑے گا۔ یہ بات نہیں ہے کہ میں سکون سے بیٹھ جاؤں کہ پانچ جماعتیں گھرپر ہو گئیں تو میں موسیٰ کو اب سکول بھیج دوں۔ نہیں مجھے اس سے زیادہ سیکھنا پڑے گا ۔ میں کبھی اسے اس سسٹم میں نہیں بھیجوں گی جو میرے بچے کو خوشی نہیں دے گا ۔ اور میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنی خوشی سے دنیا کو دریافت کرے۔ '

جوبچے کرونا کے بعد گھروں پر نصاب پورا کر رہے ہیں کیا وہ بھی ہوم سکولنگ کر رہے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو کی بات کچھ ایسے لوگوں سے بھی ہوئی جو گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ دیگر بچوں کو بھی ہوم سکولنگ کے نام پر تعلیم دے رہے ہیں۔

وہ بچے جو کسی وجہ سے سکول میں ٹھیک سے چل نہیں پائے اور انہیں پڑھائی میں مدد کی ضرورت پڑی اور وہ ان کے پاس آئے، ان کے طریقہ تعلیم سے متاثر ہو کر والدین نے بچوں کو سکول سے اٹھوایا اور یہیں بورڈ کے ، یا میٹرک یا او، اے لیولز کے امتحانات کی تیاری کے لیے بھیجنا شروع کر دیا یا یہاں وہ بچے آتے ہیں جو ابھی پری سکول میں ہیں تو والدین مصروفیات کی بنیاد پر انہیں ایسے اداروں میں بھیج دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بچے کی ہوم سکولنگ ہو رہی ہے کیونکہ ابھی وہ سکول نہیں جا رہا۔

امبر کے خیال میں ایسے ادارے یا گھر جہاں بچہ  گھر میں بیٹھ کر بھی سکول کا نصاب ہی پڑھ رہا ہے، اسے ہوم سکولنگ نہیں کہیں گے۔ وہ کہتی ہیں: 'ہو سکتا ہے کہ بڑی  کلاسوں میں جا کر بچوں کو پڑھائی میں مدد کی ضرورت پڑتی ہو مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے جو ٹاپکس ملے ہیں وہ کسی خاص کتاب سے پڑھ کر ہی وہ سیکھے گا۔ اس کتاب کے علاوہ اور بھی بہت سے ذریعے ہو سکتے ہیں یا طریقے ہو سکتے ہیں جن سے بچہ سکیھے، ہمیں اسے اس روایتی طرز تعلیم سے ہی تو باہر نکالنا ہے اور اگر کوئی اسی طرز تعلیم پر گھر بیٹھ کر عمل کر رہا ہے تو اسے ہم ہوم سکولنگ نہیں کہیں گے۔ '

امبر نے بتایا کہ اس ہوم سکولنگ کے سفر میں اگر ان کے شوہر ان کا ساتھ نہ دیتے اور موسیٰ کو تعلیم دینے میں ان کے شانہ بشانہ نہ ہوتے تو شاید ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا ہوم سکولنگ کا تجربہ اتنا شاندار ہے کہ وہ اور ان کے شوہر اپنی چھوٹی بیٹی کو بھی ہوم سکول کرنے کا  فیصلہ کر چکے ہیں۔

'میرے خیال سے گھر میں رہ کر بچے کی ضروریات کے حساب سےتعلیمی نصاب مرتب کر کے اسے ذہنی دباؤ کا شکار کیے بغیر تعلیم دینے کے علاوہ ہمارے پاس اب  اور اس طرح  ہم ایک ایسی نسل پروان چڑھائیں جو پیروکاروں کی نہیں بلکہ  لیڈرز کی نسل ہو۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین