قتل سے پہلے رومینہ کے والد ایرانی قانون کی تحقیقات کرتے رہے

رضا اشرفی نے نیند میں اپنی بیٹی کو ہلاک کرنے سے کچھ ہی دیر قبل اپنے وکیل داماد سے ٹیلیفون پر بات کی۔

(ٹوئٹر)

تازہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ رومینہ اشرفی کے والد انہیں قتل کرنے سے قبل ایران میں نافذ تعزیرات کے قانون کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے رہے اور اس کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی ممکنہ سزاؤں کا بھی جائزہ لیتے رہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی نے مقامی روزنامے کے حوالے سے بتایا کہ رضا اشرفی نے نیند میں اپنی بیٹی کو ہلاک کرنے سے کچھ ہی دیر قبل اپنے وکیل داماد سے ٹیلیفون پر بات کی۔  انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ایک گارڈین کی حیثیت سے اگر یہ اقدام اٹھائیں تو ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

ایرانی تعزیراتی ضابطے کے مطابق  والد اپنے بچوں کا نگہبان اور سرپرست ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے مارے جانے کے الزام پر بھی اسے دیت کی ادائیگی کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

رومینہ کا سر ان کے والد نے درانتی سے اس وقت قلم کردیا تھا جب وہ اپنے چھ سالہ بھائی کے ساتھ سو رہی تھیں۔ 

رومینہ کی والدہ کے مطابق، ’رومینہ اور اس کے والد کے درمیان ایک عرصے سے جھگڑا چل رہا تھا۔ میرے شوہر نے بار بار رومینہ کو جان سے مارنے کی دھمکی یا اسے خودکشی کرنے کی ترغیب دی ہے۔‘

میڈیا سے گفتگو میں والدہ نے بتا چکی ہیں کہ ’اس کے والد نے رومینہ کو چوہے مارنے کی دوا دی تھی اور رومینہ سے کہا تھا کہ وہ خود کو  مار دے تاکہ انہیں اسے مارنے کی ضرورت نہ رہے۔‘

پولیس کے مطابق 37 سالہ قاتل کو جائے وقوعہ پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ایرانی قانون کے تحت ایک باپ جس نے کسی بچے کو ہلاک کیا ہے، اسے دوسرے بچوں کی دیکھ بھال کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ اس قتل کا عینی شاہد خود رومینہ کا چھ سالہ بھائی ہے۔

قاتل باپ نے بیان دیا کہ انہوں نے جوش میں آ کر غیرت کے ہاتھوں یہ قتل کیا۔

مارے جانے سے پہلے رومینہ بہمن خاوری کے ساتھ بھاگی تھیں جو ان سے کئی سال بڑے ہیں اور اس وقت جیل میں ہیں۔

رومینہ کے وحشیانہ قتل اور ان کے والد کی جانب سے ایرانی قانون کا سہارا لیے جانے کے بعد ایرانی رہنماؤں نے ایک دوسرے پر اس طرح کے سانحات میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی حکومت کو ایرانی نژاد ٹوئٹر صارفین کی جانب سے بھی بہت زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ معاشرے کو قانونی اور اخلاقی طور پر ایسے لوگوں کے ساتھ سختی سے برتاؤ کرنا چاہیے جو خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو اپنا حق سمجھتے ہیں نیز اس ضمن میں قانون کے اندر سخت سزاؤں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

 دوسری جانب ایرانی حکومت کی جانب سے بچوں اور نوعمروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے بل کی منظوری میں تاخیر کو بھی اس المیے کا سبب سمجھا گیا ہے۔ بچوں اور نوعمروں کے حقوق کو تحفظ دینے کا بل ایرانی حکومت نے اگست 2011 میں منظور کیا تھا، اور قانونی کارروائی کے لیے اسے پارلیمنٹ بھیجا گیا تھا۔ 

گذشتہ نو برسوں میں، ایرانی گارڈین کونسل اور پارلیمنٹ کے مابین کم از کم تین بار اس قانون کے مسودے کا تبادلہ ہوا ہے  اور اس کی منظوری ہر بار قانونی اور شرعی شکلوں کے ساتھ ملتوی کردی گئی ہے۔

گارڈین کونسل کے ترجمان عباس علی کدھودائی نے کہا ہے کہ گارڈین کونسل نے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین