شہباز شریف گھر پر نہیں تھے لیکن دوبارہ چھاپے ماریں گے: نیب

نیب نے طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹیم ماڈل ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ بھی پہنچ گئی تاہم انہیں خالی ہاتھ ہی واپس لوٹنا پڑا۔

 شہباز شریف کی جانب سے پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست قبل از گرفتاری دائر کی گئی  ہے۔ (فائل تصویر: اےا یف پی)

قومی احتساب بیورو(نیب) نے طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک ٹیم ماڈل ٹاؤن میں واقع ان کی رہائش گاہ بھی پہنچ گئی تاہم انہیں خالی ہاتھ ہی واپس لوٹنا پڑا۔

نیب لاہور کے ترجمان محمد ذیشان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ شہباز شریف گھر پر موجود نہیں تھے اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

محمد  ذیشان نے کہا کہ جیسے ہی شہباز شریف کی موجودگی کی اطلاع ملے گی دوبارہ گرفتاری کے لیے چھاپے ماریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں مطلوب ہیں اور یہ نیب کا قانونی اختیار ہے کہ وہ تفتیش کے لیے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرے۔

شہباز شریف ماڈل ٹاؤن میں اپنی رہائش گاہ پر نہ ملے تو نیب کی ایک اور ٹیم کو شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے جاتی امرا بھی روانہ کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے یہ کارروائی دو گھنٹہ سے زائد عرصے تک جاری رہی۔ اس دوران مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی تاہم پولیس نے کارکنوں کو شہباز شریف کی رہائش گاہ جانے سے روکے رکھا۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہباز شریف کے گھر کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔

ن لیگ کا ردعمل اور حکومتی موقف

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شہباز شریف 133 دن پہلے ہی نیب کی حراست میں رہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جو شخص پہلے حراست میں رہا ہے، اس سے اب کیا تحقیق کرنی ہے؟ یہ بالکل سیاسی انتقامی کارروائی ہے، اسے تسلیم نہیں کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب ہائی کورٹ میں ان کی درخواست ضمانت سماعت کے لیے منظور ہوچکی ہے جس کی سماعت کل بروز بدھ ہوگی۔‘

واضح رہے کہ شہباز شریف کی جانب سے پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست قبل از گرفتاری دائر کی گئی تھی۔

عطا اللہ تارڑ کے مطابق نیب کی ٹیم نے جو وارنٹ گرفتاری دکھایا، اس پر 28 مئی کے دستخط ہیں۔ ’وزیر اعظم اور ترجمانوں کو پہلے ہی کیسے پتہ تھا کہ شہباز شریف کو گرفتار کیا جانا ہے؟‘

سینیئر صحافی حامد میر بھی شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شہباز شریف کو دوبارہ گرفتار کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں کیونکہ بجٹ اجلاس ہونے والا ہے دوسری جانب کرونا پر قابو پانے سے متعلق مہم جاری ہے ایسے حالات میں انہیں فوری گرفتار کرنے کا جواز نہیں بنتا۔‘

دوسری جانب وزیر ریلوے شیخ رشید نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلم لیگ ن کے رہنما ابتدا سے ہی احتساب کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے ہیں، جب بھی کسی ملزم کے خلاف کارروائی کی جائے تو وہ شور ضرور مچاتا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہباز شریف کے خلاف کیسز کا پس منظر

نیب نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گذشتہ سال آشیانہ ہاؤسنگ اور 52 کمپنیوں کے کیس میں گرفتار کیا تھا، تاہم عدالت نے کچھ عرصہ بعد انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

میاں شہباز شریف ضمانت پر رہائی کے بعد سابق وزیر اعظم اور اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے علاج کی غرض سے ان کے ساتھ لندن روانہ ہوئے اور چند ماہ وہاں گزارنے کے بعد کرونا (کورونا) وائرس پھیلنے پر وہ وطن واپس آگئے تھے۔

نیب کی جانب سے پہلے سے جاری آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں انکوائری کے لیے جب انہیں پہلی بار طلب کیا گیا تو وہ پیش ہوگئے تھے، لیکن جب نیب نے انہیں دوبارہ طلب کیا تو انہوں نے ایک جواب بھجوایا جس میں کہا گیا کہ ان کی عمر 69 سال ہے اور وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں، ایسی صورت حال میں وہ دوبارہ پیش نہیں ہوسکتے کیونکہ نیب کے اپنے کئی ملازمین بھی کرونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

تاہم نیب نے شہباز شریف کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے انہیں دوبارہ طلب کیا اور آج پیش نہ ہونے پر ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔ نیب کی ٹیم نے وہاں موجود ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کو شہباز شریف کے وارنٹ گرفتاری دکھائے اور گھر کے اندر داخل ہوگئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست