بھارتی فوجیوں کا حلف: چینی سامان استعمال نہیں کریں گے

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی نیم فوجی سی آر پی ایف کے اہلکاروں سے باضابطہ طور پر حلف لیا جارہا ہے کہ وہ چین میں بننے والی مصنوعات کا استعمال نہیں کریں گے۔

بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے کے بیچ بھارتی نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں کو چین میں بننے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کا حلف دلایا جانے لگا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی نیم فوجی سی آر پی ایف کے اہلکاروں سے باضابطہ طور پر حلف لیا جارہا ہے کہ وہ چین میں بننے والی مصنوعات کا استعمال نہیں کریں گے۔

چھتیس سیکنڈ طویل یہ ویڈیو رواں ماہ کی دو تاریخ کو شمالی کشمیر کے ایپل ٹائون سوپور میں واقع 177 بٹالین سی آر پی ایف کیمپ میں منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب کے دوران ریکارڈ کی گئی ہے۔

سی آر پی ایف اہلکاروں نے ہندی زبان میں حلف لیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ یوں ہے: 'میں آج یعنی 2 جون 2020 کو یہ حلف لیتا ہوں کہ چین میں تیار ہونے والا ضروریات زندگی کا سامان جیسے کھانے کی، پینے کی، پہننے کی، الیکٹرانک سامان، مواصلاتی سامان وغیرہ کا استعمال نہیں کروں گا۔ جے ہند۔'

انڈپینڈنٹ اردو نے معاملے پر جب سری نگر میں تعینات سی آر پی ایف کے ترجمان پنکج سنگھ سے بات کی تو انہوں نے پہلے ایسی کسی بھی تقریب کے انعقاد سے انکار کیا لیکن واقعے کی ویڈیو بھیجے جانے کے بعد انہوں نے اسے جذبات میں بہہ کر انجام دیا جانے والا کام قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا: 'مجھے لگتا ہے کہ جذبات میں بہہ کر حلف برداری کی یہ تقریب منعقد کی گئی ہے۔ میری مذکورہ بٹالین کے کمانڈنگ افسر سے بات ہوئی۔ حلف برداری کی یہ تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کچھ اہلکاروں نے انفرادی طور پر لیا ہے۔ اس کا پوری سی آر پی ایف سے مطلب نہیں ہے۔ جو حکومت ہند کا موقف ہے وہی سی آر پی ایف کا بھی موقف ہے۔ کوئی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتا۔'

پنکج سنگھ نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے ایک حالیہ حکم نامے کے تحت اب سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کی کینٹینوں میں دیسی مصنوعات ہی فروخت کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا: 'وزارت داخلہ کا حکم نامہ ہے کہ ہماری کینٹینوں میں اب سودیشی سامان ہی بکے گا۔ اس میں کیا غلط ہے؟ مگر بائیکاٹ وغیرہ صحیح نہیں ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ ہمیں اپنی مصنوعات کو فروغ دینا ہے۔ ان کا زیادہ استعمال کرنا ہے۔ حکومت ہند چین سے سستا سامان بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔'

'بائیکاٹ چائنا' مہم

مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر کئی کلو میٹر اندر داخل ہونے والی چینی فوج نے بھارت میں وسیع پیمانے پر عوامی غصے کو جنم دیا ہے۔ جہاں بھارتی حکومت چین سے مذاکرات کی راہیں تلاشنے میں مصروف ہے وہیں بعض جوشیلے افراد لوگوں سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کررہے ہیں۔

لداخ سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم و جدت پسند انجینئر سونم وانگ چک نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں چین میں بننے والے الیکٹرانک مصنوعات اور موبائل ایپس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل جاری کی ہے جس کی بھارتی میڈیا بالخصوص ارنب گوسوامی کا 'ری پبلک ٹی وی' کافی تشہیر کررہا ہے۔

سونم وانگ چک ایک نامور شخصیت ہیں اور عامر خان نے فلم تھری ایڈیٹس میں فنسکھ وانگڑو کا کردار دراصل ان ہی سے متاثر ہو کر نبھایا تھا۔ تاہم ان اقدامات کے بعد وہ بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایتی نظر آرہے ہیں۔

انجینئر وانگ چک لداخ میں ریکارڈ کی جانے والی ایک ویڈیو میں کہتے ہیں: 'میں تو کہتا ہوں کہ اس بار بھارت کی بلٹ پاور سے بھی زیادہ والٹ پاور کام آئے گی۔ ذرا سوچیے ہم آپ بھارت میں کاروبار کو مار کر چین سے مورتیوں سے کپڑوں تک ہر سال پانچ لاکھ کروڑ روپے کا سامان خریدتے ہیں۔ یہ پیسہ آگے چل کر سرحدوں پر ہمارے فوجیوں کے لیے موت کی وجہ بن سکتا ہے۔'

وہ آگے کہتے ہیں: 'اس لیے اگر ہمارے دیش کے 130 کروڑ لوگ اور وہ تین کروڑ بھارتی، جو مختلف دیشوں میں ہیں، دنیا بھر میں بائیکاٹ میڈ ان چائنا تحریک شروع کرتے ہیں تو چین کی معیشت ڈگمگائے گی اور چینی لوگ اپنی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا شروع کریں گے نتیجتاً حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا۔'

سونم وانگ چک نے چینی موبائل ایپس جیسے ٹک ٹاک کو ایک ہفتے کے اندر ان انسٹال کرنے اور الیکٹرانک مصنوعات کا استعمال ایک سال کے اندر ترک کرنے کی بھارتی عوام سے اپیل کی ہے۔

'میں آپ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جہاں تک ایپس اور سافٹ ویئر کی بات ہے تو ہمارے نوجوانوں کو انہیں ایک ہفتے کے اندر ان انسٹال کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہارڈ ویئر کی بات ہے تو اس کا استعمال ایک سال کے اندر اندر ترک کرنا چاہیے۔ جیسے ہی اس تحریک کا اثر چین کی معیشت پر پڑے گا تو وہ مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوگا۔'

وانگ چک جو خود ایک چینی موبائل فون استعمال کرتے ہیں، مزید کہتے ہیں: 'میرے فون میں جو بھی چینی ایپس ہیں ان کو میں ایک ہفتے کے اندر اندر ہٹا دوں گا۔ یہ فون جو کہ چین میں بنا ہے، اس کو بھی ایک ہفتے کے اندر اپنی زندگی سے الگ کررہا ہوں۔ ہر ایک چیز جس پر میڈ ان چائنا لکھا ہے اس کو زندگی سے الگ کردوں گا۔'

سوشل میڈیا پر اگرچہ بعض افراد 'میڈ ان چائنا' مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلانے میں کافی سرگرم نظر آرہے ہیں تاہم ان لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ان سے طنزیہ انداز میں سوال کررہے ہیں کہ 'کیا چینی فون سے بائیکاٹ چائنا کی مہم چلانا جائز ہے'۔

سرحد پر موجودہ صورت حال

گذشتہ ماہ (مئی) کی پانچ اور بارہ تاریخ کو مشرقی لداخ میں مبینہ طور پر بیس سے پچیس کلو میٹر اندر داخل ہونے والے چینی فوجی اپنی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنے پر ہنوز آمادہ نہیں ہورہے ہیں۔

لداخ سے ایک صحافی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک ماہ گزر جانے کے باوجود تعطل برقرار ہے اور دونوں اطراف کے فوجی بظاہر اپنی متعلقہ حکومتوں کی ہدایات کے انتظار میں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: 'پانچ مئی کو بھارت اور چین کے فوجی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس دوران لاٹھیوں، سلاخوں اور پتھروں کا استعمال کیا گیا۔ تب سے لیکر اب تک اگرچہ طرفین کے درمیان جھڑپیں نہیں ہوئیں تاہم غیر یقینی صورتحال بدستور جاری ہے۔'

صحافی نے بتایا کہ چینی فوجی اہلکار تقریباً بیس سے پچیس کلو میٹر اندر داخل ہوئے ہیں اور اپنی پوزیشنیں چھوڑنے سے انکاری ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'دونوں ممالک کی افواج نے بھاری مقدار میں جنگی ساز و سامان حقیقی کنٹرول لائن کے نزدیک پہنچا کر تیار حالت میں رکھا ہے۔ اس کے علاوہ گلوان وادی اور اس کے اطراف و اکناف میں آج کل فوجی گاڑیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت بھی دیکھی جاری ہے'۔

حقیقی کنٹرول لائن پر جنگی صورت حال سایہ فگن ہونے سے لداخ کے لوگوں میں طرح طرح کے خدشات و تحفظات پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طرفین کے درمیان جنگ سے مسائل مزید سنگین ہوں گے اور لوگوں کو بھی گونا گوں پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا