کیا کرونا مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز واقعی ضروری ہیں؟ 

کرونا بحران کے دوران زیادہ تر حکومتوں کا ماننا تھا کہ وینٹی لیٹرز کی کثرت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ جانیں بچائی جا سکتی ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

پشاور میں عید کے دوسرے روز سینیئر فوٹو گرافر گلشن عزیز انتقال کر گئے جبکہ ٹی وی سے وابستہ سینیئر رپورٹر فخرالدین سید کرونا (کورونا) وائرس کا شکار ہو کر حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیر علاج تھے۔

پلازما کا عطیہ بھی آزمایا گیا۔ پشاور کی فضا خاصی سوگوار تھی۔ کئی صحافیوں کا کرونا ٹیسٹ مثبت موصول ہوا تھا۔ نظریں اب فخرالدین سید کی صحت یابی پر تھیں کہ اچانک خبر آئی کہ ان کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے اور پھر چند گھنٹے بعد ان کے وفات کی خبر موصول ہوئی۔

وینٹی لیٹر تو فراہم کر دیا گیا تھا پھر ان کی موت کیوں ہوئی؟ دراصل وینٹی لیٹرز کے حوالے سے کرونا بحران میں عالمی سطح پر جو اندازے لگائے جا رہے تھے وہ بھی دیگر اندازوں کی طرح غلط ثابت ہو رہے ہیں۔

 اس حوالے سے مردان میڈیکل کمپلیکس، جہاں پاکستان میں کرونا سے پہلی موت رپورٹ ہوئی تھی، کے کارڈیالوجی (آئی سی یو) وارڈ کے رجسٹرار ڈاکٹر شفیق عالم کا ماننا ہے کہ بعض اوقات تو مکینیکل وینٹی لیٹر پر ڈالنے سے مریض کی زندگی کو خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'دراصل کرونا کے مریض کے پھیپڑے کھچاؤ کا شکار ہوتے ہیں، ایسے میں اگر اسے مصنوعی تنفس پر رکھ دیا جائے تو پھیپڑے بعض اوقات دباؤ سہہ نہیں پاتے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آکسیجن کی فراہمی کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔'

دراصل آکسیجن کی فراہمی کئی طریقوں سے ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ صرف مکینیکل وینٹی لیٹر سے ہی آکسیجن فراہم کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا بحران میں وینٹی لیٹرز کی افادیت، تعداد اور فراہمی کے حوالے سے حکومتوں اور میڈیا کی جانب سے کتنی ہی بحث کیوں نہ ہو عملی میدان میں ڈاکٹرز اسے موت سے پہلے آخری آپشن کے طور پر ہی تجویز کرتے ہیں۔

'اگر اعداد وشمار دیکھے جائیں تو وینٹی لیٹر پر مرنے والوں کی تعداد 84 فیصد کے لگ بھگ ہے، جو بہت زیادہ ہے۔ ہم جو علاج معمول کے مطابق کر رہے ہیں اس سے بچنے والوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگر مریض کو دل، شوگر، دمہ، گردوں یا کوئی دوسری بیماری نہ ہو تو زندگی کی طرف لوٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سنگین صورت حال میں جب یہ دیگر بیماریاں بھی لاحق ہوں وینٹی لیٹر سے زندگی کی طرف واپس آنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔'

عالمی سطح پر کرونا بحران کے سر اٹھانے کے بعد زیادہ تر حکومتوں کا ماننا تھا کہ وینٹی لیٹر کی کثرت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں ہونے والی اموات کے دوران کئی بار شور مچا کہ وینٹی لیٹر فراہم نہ ہونے کے باعث موت واقع ہوئی۔

 بعض اوقات مریض کے رشتے دار ہسپتال انتظامیہ پر زور ڈالتے ہیں کہ ان کے مریض کو وینٹی لیٹر دیا جائے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اب ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا کے شکار مریض کو متبادل طریقوں سے علاج فراہم کیا جائے اور مریض کے مدافعاتی نظام کو طاقت ور رکھا جائے تاکہ مصنوعی تنفس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو وینٹی لیٹر کے لیے انکار ہی کیا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت