لاک ڈاؤن بھی پاکستانیوں کو کتاب پڑھنے پر مائل نہ کر سکا

لاک ڈاؤن کے دوران دنیا بھر میں زیادہ کتابیں پڑھی گئی ہیں، لیکن پاکستان میں کیا صورتِ حال رہی؟

ہمارےہاں لاک ڈاؤن میں لوگوں کی توجہ غالباً ترک ڈرامے دیکھنے پر رہی، کتابوں پر نہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

کرونا (کورونا) کی وبا کے دوران دنیا بھر میں جہاں کئی معمولات اتھل پتھل ہوئے ہیں وہاں ایک اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ لاک ڈاؤن کے دوران کتب بینی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی کی پبلک لائبریری سے کتابیں جاری کروانے والوں کی تعداد گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں 37 فیصد بڑھی ہے۔ کنڈل پر آن لائن کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں سات گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کنڈل نے صرف مارچ کے مہینے میں 29 ملین ڈالر کی کتابیں فروخت کیں۔

اس کے مقابلے میں پاکستان میں کیا صورت حال رہی؟ کیا پاکستان میں بھی کتب بینی میں کوئی اضافہ ہوا ہے؟ اس کے لیے جب ہم 17 جون 2020 کو گوگل کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ دیکھتے ہیں کہ پاکستانیوں نے اس دوران نیٹ پر کیا سرچ کیا ہے تو اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، کھانوں کی ترکیبوں سے لے کر ورزش کے طریقوں تک سب میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن کیا پاکستانیوں نے آن لائن کتابیں بھی پڑھی ہیں؟ اور اگر پڑھی ہیں تو اس میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟

اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے پاکستان میں سابق نمائندے بدر خوشنود سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ گوگل سے ہم کتب بینی کے رجحانات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ لوگ کس قسم کی کتابیں پڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے مجموعی طور پر دسمبر 2019 سے کتب بینی میں اضافہ دیکھا گیا ہے تاہم پاکستان میں جنسی موضوعات کی کتابیں سرچ میں پہلے نمبر پر ہیں، دوسرے نمبر پر ابن عربی کی کتابیں ہیں، پھر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ، غامدی صاحب اور دعوت اسلامی کی کتابوں کا نمبر آتا ہے۔ تاریخی کتب میں نسیم حجازی پہلے اور طارق اسماعیل ساگر دوسرے نمبر پر ہیں۔

سلیم ملک پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں کتابوں کی آن لائن یا دکانوں پر سیل میں بہت زیادہ کمی ہوئی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کتاب کی قیمت میں ہونے والا 40 فیصد اضافہ ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے جب درآمدات پر ٹیکس بڑھایا تواس میں کتابوں کو بھی شامل کر دیا تھا، اب تمام در آمد شدہ کتابوں پر11 فیصد ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'پاکستان میں کتب بینی کا رجحان بہت ہی کم ہے۔ زیادہ تر کتابیں لائبریریا ں خریدتی ہیں جن کی تعداد پورے ملک میں تین ہزار کے لگ بھگ ہے، یہ بھی زیادہ تر تعلیمی اداروں کی ہیں۔ سال میں 600 کے قریب نئی کتابیں مارکیٹ میں آتی ہیں جب وہ نہیں بکتیں تو پبلشرز نئی کتابوں کی اشاعت بھی روک دیتے ہیں۔ مشرف دور میں تعلیمی اداروں کو بہت فنڈز دیے گئے تو کتابیں بھی زیادہ بکیں۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے اس نے پچھلے سال بھی لائبریریوں کا فنڈ واپس لے لیا تھا اور اس سال بھی یہی لگتا ہے کہ یہ فنڈ کرونا کی نظر ہو جائے گا۔'

انہوں نے کہا کہ صرف لاہور کے اردو بازار میں اڑھائی ہزار لوگوں کا روزگار کتابوں کی فروخت سے وابستہ ہے، جو اب داؤ پر لگ چکا ہے۔

سعید بک بینک اسلام آباد کے مالک احمد سعید سے جب سوال کیا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں لاک ڈاؤن کے دوران کتابوں کی فروخت کی کیا صورت حال کیا رہی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس دوران کتابوں کی فروخت میں 75 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے 40 ملازمین تھے جن کی تعداد اب صرف دس رہ گئی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں کتب بینی زوال کا شکار ہے یہاں لوگ دو لاکھ کا موبائل فون تو خرید لیتے ہیں، دو ہزار کی کتاب نہیں لیتے۔‘

صریر پبلیکیشنز کے ایڈوائزر اور نامور شاعر نصیر احمد ناصر نے انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں کرونا کے دوران تو یہ کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ ہم نے دو ہفتے پہلے اپنے شوروم پر ’فری بک کارنر‘ قائم کیا اس میں سینکڑوں کتابیں رکھیں مگر مجھے ابھی بتایا گیا کہ انہیں بھی لینے کوئی نہیں آیا۔ لوگ اب فارغ وقت سوشل میڈیا کو دے دیتے ہیں، کتب بینی والے تو شاید اب گنے چنے ہی رہ گئے ہیں۔

تاہم بک کارنر جہلم کے مالک گگن شاہد نے اس تاثر کی نفی کی کہ لاک ڈاؤن میں کتابوں کی فروخت بہت کم ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'جب ہم نے دیکھا کہ لوگ گھروں میں بیٹھ گئے ہیں تو ہم نے آن لائن کتابوں کی سیل لگا دی جس سے کتابوں کی فروخت میں کافی اضافہ ہوا۔ لوگوں نے ہر طرح کی کتابیں خریدیں۔ پی ٹی وی پر ارطغرل ڈرامے کے نشر ہونے کے بعد خلافت اسلامیہ اور اسلامی تاریخ پر کتابوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ