رینجرز پر حملے کرنے والی سندھودیش ریولوشنری آرمی کون ہے؟

سندھو دیش ریولوشنری  آرمی کا نام پہلی بار 2010 میں سنا گیا تھا، جسے حال ہی میں حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

کراچی اور گھوٹکی میں حملوں کی ذمہ داری 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ (تصویر: سندھو دیش ریولوشنری آرمی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

 

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں جمعے کو دستی بم حملوں میں ایک شہری اور دو رینجرز اہلکار ہلاک جبکہ دونوں حملوں میں تین رینجرز اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق جمعے کی صبح پنجاب کی سرحد سے متصل ضلع گھوٹکی کے ہیڈکواٹر شہر گھوٹکی کی گھوٹا مارکیٹ میں رینجرز کی ایک گاڑی کے قریب ہونے والے دھماکے میں رینجرز کے دو اہلکار ظہور احمد اور فیاض شاہ ہلاک جبکہ سپاہی امتیاز حسین سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے دو گھنٹے بعد صوبائی دارالحکومت کراچی کے علاقے لیاقت آباد کے ایک سرکاری سکول میں قائم وفاقی حکومت کے احساس کفالت پروگرام کے دفتر کے باہر سکیورٹی پر مامور رینجرز کی گاڑی پر دستی بم حملے میں پولیس کے مطابق ایک شخص ہلاک اور رینجرز اہلکار سمیت آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔

ان دونوں حملوں کی ذمہ داری 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جسے کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

کالعدم تنظیم 'سندھو دیش ریولوشنری آرمی' کے ترجمان سوڈھو سندھی کی جانب سے ٹوئٹر پر اور میڈیا نمائندوں کو وٹس ایپ پر بھیجے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ 'یہ حملے لاپتہ قوم پرست رہنما نیاز لاشاری کی لاش ملنے کے ردعمل میں انہیں 'قومی سلام' پیش کرنے کے لیے کیے گئے۔'

واضح رہے کہ منگل کی صبح کراچی کے ضلع ملیر کی حدود میں نیشنل ہائی وے کو سپر ہائی وے سے جوڑنے والے لنک روڈ پر واقع سمندری بابا کے مزار کے قریب سے سندھی قوم پرست رہنما نیاز لاشاری کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی، جو کئی روز سے لاپتہ تھے۔

سندھو دیش ریولوشنری آرمی کون ہے؟

مئی 2020 میں حکومت پاکستان نے کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنی تنظمیوں کے ساتھ سندھ کی قوم پرست جماعتوں جیے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر گروپ)، سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش ریولوشنری آرمی کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور تخریب کاری کے الزام میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم قرار دے دیا تھا۔

سندھو دیش ریولوشنری  آرمی کا نام پہلی بار 2010 میں سنا گیا جب سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ٹرین کی پٹریوں پر حملہ ہوا اور اس تنطیم نے ایک پمفلٹ کے ذریعے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔

سندھ میں 'جیے سندھ' کے نام پر کام کرنے والی کئی تنظیمیں اور گروپ، مقبول سندھی قوم پرست رہنما غلام مرتضیٰ سید المعروف جی ایم سید کی پارٹی جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) سے نکلی ہیں۔ ان میں زیادہ تر تنظیمیں اور گروپ جی ایم سید کے عدم تشدد کے نظریے پر کام کرتے ہوئے پرامن طریقے سے سندھ کی آزادی چاہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ابھی تک جیے سندھ کے نام سے صرف دو ہی گروپ تشدد میں ملوث پائے گئے۔ ایک جیے سندھ متحدہ محاذ (شفیع برفت گروپ) کے زیر انتظام سندھو دیش لبریشن آرمی اور دوسرا سندھو دیش ریولوشنری آرمی، اسے بھی شفیع برفت نے فرضی نام دریا خان کے نام سے بنایا تھا۔ مقامی اخبارات کے مطابق دریا خان اصل میں شفیع برفت کا دوسرا نام ہے۔

شفیع برفت خود ساختہ جلاوطنی کے بعد اس وقت ملک سے باہر ہیں۔ ان کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق اس وقت وہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں مقیم ہیں۔

بعد میں جامشورو کے رہائشی تنظیم کے ایک اور رہنما سید اصغر شاہ، جو خود کو کمانڈر صوفی شاہ عنایت کہلاتے ہیں، نے شفیع برفت سے چپقلش کے بعد سندھو دیش ریولوشنری آرمی کی کمانڈ سنبھال لی اور اس وقت وہی اس تنظیم کو چلا رہے ہیں۔

سندھو دیش ریولوشنری آرمی نے 2013 میں کراچی میں چینی سفارتخانے کے باہر ایک دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینیئر کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس کے علاوہ کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ پر کیے گئے حملوں کی ذمہ داری بھی اس تنطیم نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان