بلوچستان: 'تین بیٹیاں پیدا کرنے پر وحشیانہ تشدد اور بیوی کا قتل'

لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی پولیس سرجن عائشہ فیض کے مطابق 'لڑکی کو بے دردی سے مارا گیا اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بہت زیادہ ہیں۔ لکڑی سے بھی مارا گیا ہے، چہرے پر ناخن کے نشانات بھی تھے۔' 

(ٹوئٹر)

چہرے کے زخموں سے لگتا ہےکہ اس نے مزاحمت کی تھی لیکن شاید مخالف زیادہ طاقتور تھا اور یہ عورت تھی۔

یہ اس لیے زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کرسکی اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔

'لڑکی کو بے دردی سے مارا گیا اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بہت زیادہ ہیں۔ لکڑی سے بھی مارا گیا ہے، چہرے پر ناخن کے نشانات بھی تھے۔' 

یہ کہنا تھا سول سنڈیمن ہسپتال کی پولیس سرجن عائشہ فیض کا جنہوں نے شوہر کے تشدد سے ہلاک ہونیوالی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔ 

عائشہ فیض کے بقول مقتولہ کی موت تشدد کے وجہ سے ہوئی۔ 'ہمارے پاس یہ لاش دن کے وقت کے لائی گئی اور زخموں سے لگتا جیسے کسی نے وحشیانہ طریقے سے تشدد کیا ہے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔'

بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے توبہ اچکزئی میں گزشتہ روز شوہر نے تشدد کرکے اپنی بیوی کو قتل کردیا تھا جس کے خلاف لڑکی کے والد نے قتل کا مقدمہ لیویز تھانہ دوبندی میں لڑکی کے شوہر کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کے والد نے بتایا کہ مورخہ 18 جون کو صبح انہیں فون کرکے بتایا گیا کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کی ہے اور لاش پشین کے علاقے حرمزئی میں ہے، آ کر لے جائیں۔ 

لڑکی کے والد عبدالرزاق نے بتایا کہ وہ لاش لینے کے لیے  حرمزئی گئے اور لاش کا معائنہ کرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی کو وحشیانہ تشدد کرکے مارا گیا ہے۔ 

عبدالرزاق کے مطابق 'میری بیٹی کو اس کے شوہر سردار محمد نے تشدد کرکے ہلاک کیا اور مجھےکہا کہ اس نے پھندا ڈال کر خود کشی کی ہے۔'

واقعے کے حوالے سے تفتیش کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکااللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ واقعہ قلعہ عبداللہ کی حدود کلی دوبندی میں پیش  آیا ہے اور قتل کا مقدمہ مقتولہ کے شوہر کے نام درج کرلیا گیا ہے۔ 

اسسٹنٹ کمشنر کے بقول 'میں نے لیویز کے ہمراہ نامزد ملزم کے گھر پرچھاپہ مارا لیکن ملزمان میں سے کوئی بھی گھر میں موجود نہیں تھا اس لیے کوئی گرفتاری عمل میں نہ آ سکی۔ 

ذکا اللہ کے مطابق 'ہم نے مقتولہ کی دوسری بہن جو ملزمان کے گھر میں موجود تھیں، انہیں بازیاب کرکے ورثاکے حوالے کردیا ہے اور ایک تحصیلدار علاقے میں موجود ہے جو نامزد ملزمان کو جلد گرفتا ر کرلے گا۔ 

ادھر ضلع پشین کے مقامی صحافی جنہیں اس واقعے کی سب سے پہلے اطلاع ملی تھی، انہوں نے بتایا کہ یہ صبح کا وقت تھا جب مجھے کسی نے فون کرکے کہا کہ دوبندی کے علاقے میں شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے اور اسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمیں اطلاع ملی اور رابطہ کرنے پر اتنا بتایا گیا کہ مقتولہ کی لاش کو پشین ہسپتال لایاجارہاہے۔ 

ثنا اللہ کے بقول جب لاش ہسپتال لائی گئی تو اس کے ساتھ ان کے والد بھی ہمراہ تھے جنہوں نے بتایا کہ میری بیٹی پر اس کا شوہر عرصے سے تشدد کررہا تھا لیکن  اس نے ہمیں نہیں بتایا ۔

ثنا اللہ کے مطاق ،مقتولہ کے والد نے بتایا کہ 'میری بیٹی کی شادی کو 8 سال ہوئے ہیں اور اس کی تین بچیاں ہیں جن میں سب سے چھوٹی ایک ماہ قبل پیدا ہوئی ہے۔'

جب یہ اس رمضان میں گھر آئیں تو بتایا کہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جارہا ہے اوربیٹیاں پیدا ہونے پر طعنے دیے جاتےہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقتولہ کے والد نے صحافی کو بتایا کہ پھر میں نے ان کے شوہر کے بڑے بھائی کو بلایا اور انہیں اپنی بیٹی پر تشدد کے حوالےسے بتایا جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا اور اس امر کی انہوں نے ضمانت دی۔

مقتولہ کےوالد کے مطابق 'اس ضمانت کے باوجود میری بچی پر تشدد جاری رہا اور اب ہمیں اس کی لاش ملی ہے۔' 

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنےوالی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال بلوچستان میں 28 خواتین کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں سے پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

انسانی حقوق کے لیے  کام کرنے والے ایک متحرک سماجی کارکن اور بلوچستان سائیکالوجسٹ ایسوسی ایشن کے رہنما بہرام لہڑی  سمجھتے ہیں کہ کرونا کی وباکے باعث خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

بہرام لہڑی کے مطابق 'ہم نے موجودہ صورتحال میں مفت آن لائن کونسلنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے اور ابھی تک ہمارے پاس پچاس ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں خواتین نے گھریلو تشدد کی شکایت کی ہے۔'

بہرام لہڑی کے بقول ،گھریلو تشدد کی بہت سے وجوہات ہیں جن میں غربت اور تعلیم کی کمی سمیت سرفہرست مردوں کی برتری ثابت کرنے کی کوشش شامل ہے ۔

بہرام لہڑی سمجھتے ہیں کہ حالیہ واقعات جن میں  خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا، تشویشناک ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے تعلیم یا آگاہی دینے سمیت قانون میں اہم تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے ۔

بہرام لہڑی کے مطابق ہمارا معاشرہ رسم و رواج کے تحت چل رہا ہے جن میں اکثر خواتین مخالف ہیں جو تشدد کی وجہ بھی بنتے ہیں ۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان