'ابو دوسری شادی کے بعد زندگی کی طرف لوٹ آئے'

بیواؤں کے عالمی دن کے موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو آپ کو ایک ایسے جوڑے سے ملوا رہا ہے جس نے شریک حیات کے انتقال کے بعد اپنے بچوں کی رضامندی سے شادی کرنے کو اکیلے رہنے پر ترجیح دی۔

مریم کے آنے کے بعدمیری زندگی میں مثبت تبدیلیاں آئیں: چوہدری افضل علی (تصویر چوہدری افضل)

سات برس پہلے جب مریم کی شادی چوہدری افضل علی نسیم سے ہوئی تو ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا جب کہ چوہدری افضل کے پانچ بچے تھے اور سبھی شادی شدہ تھے۔

مریم بیوہ تھیں اور چوہدری افضل کی اہلیہ بھی 2010 میں انہیں چھوڑ کر اگلے جہان جا چکی تھیں۔ چوہدری افضل ملتان کے ایک ادارے میں میں چیف انجینیئر ہیں۔ انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ' جب میری اہلیہ کا انتقال ہوا تو ایسا نہیں کہ میں نے فوراً دوسری شادی کر لی ہو، میں ساڑھے تین برس تک اکیلا رہا۔ بچے اپنے گھروں کے ہو چکے تھے، میں اچھا کما لیتا ہوں مگر اس کا کیا فائدہ جب گھر آتا تھا تو بات کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا تھا، ہوٹلوں سے کھانا کھانا، نہ کوئی دھیان رکھنے والا۔ تو اتنا کمانے کا کیا فائدہ؟

'پھر میرے بچوں نےاور میں نے فیصلہ کیا کہ کوئی ہونا چاہیے جو میرا خیال کر سکے جس سے میں اپنا دکھ سکھ بانٹ سکوں تو یوں مریم کا ساتھ ممکن ہوا۔ مریم بھی بیوہ تھیں اور ان کے دو بچے تھے۔ بیٹی اب نویں جماعت میں ہے جبکہ بیٹا فرسٹ ائیر کا طالب علم ہے اور ہم سب ساتھ رہتے ہیں۔'

چوہدری افضل نے بتایا کہ مریم کے آنے کے بعد ان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں ہوئیں، 'وہ میرا خیال رکھتی ہیں، مجھ سے محبت کرتی ہیں، میرے لیے مزے کے کھانے بناتی ہیں اور سب سے بڑھ کر میری سنتی ہیں اور اپنی مجھے سناتی ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ شادی کے لیے میں نے بس ایک شرط رکھی تھی کہ جو بھی خاتون ہوں ان کی عمر میرے بچوں سے چھوٹی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ بچے انہیں ہم عمر سمجھ کر ان کی عزت نہ کریں اور نہ ہی یہ چاہتا تھا کہ بچوں کو یہ لگے کہ میں نے بہت چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔

چوہدری افضل کی بیٹی سنبل افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور ان کے بہن بھائی مریم کو باجی کہہ کر بلاتے ہیں جبکہ وہ اپنے والد کے مریم سے شادی کے فیصلے کو بہترین فیصلہ قرار دیتی ہیں۔

'ہمیں ہماری والدہ نے جنم دیا، اس لیے ہماری زندگی سے ان کی جگہ کوئی لے ہی نہیں سکتا ۔ میرے والد ہماری والدہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، امی کے چلے جانے کے بعد والد بہت زیادہ اکیلے پڑ گئے تھے، ہم سب شادی شدہ، آخر  کتنا وقت گزار سکتے تھے ان کے ساتھ؟ ابو کی صحت گرنے لگی تھی اور ہم سبھی بہن بھائی سخت پریشان تھے کہ کیا کریں؟ ظاہری بات ہے جب آپ اپنے گھر کے ہوجائیں تو والدین کا  ہر وقت اس طرح خیال رکھنا ممکن نہیں رہتا جس طرح وہ خود ایک دوسرے کا رکھ سکتے ہیں ۔

مگر والدہ کے بعد ابو کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ ان کی دوسری شادی کر دینی چاہیے تاکہ گھر میں کوئی ہر وقت ان کے لیے ان کے پاس موجود ہو۔

مریم کے ساتھ رشتہ طے ہونے کے بعد جب ابو نے ہمیں بتایا تو مجھے بے انتہائی خوشی اور اطمینان ہو گیا۔ ہم سب بچے بڑی خوشی سے ان کی شادی میں شریک ہوئے اور ہم اپنے اس فیصلہ پر کبھی نہیں پچھتائے۔ ابو کی ہر طرح کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں تھیں، بس گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر مگر اب وہ مریم کو گھمانے پھرانے، کھانا کھلانے یا شاپنگ کے لیے باہر لے کر جاتے ہیں ہمارے گھر چکر لگاتے ہیں  یعنی جیسے وہ اس فیصلے کے بعد زندگی کی جانب لوٹ آئے ہیں۔

ایک بیٹی ہونے کے ناطے سنبل کہتی ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ والدین میں سے اگر ایک چلا جائے تو دوسرے کو باقی زندگی بچوں کے گھروں میں باری باری رہ کر گزار دینی چاہیے کیونکہ آپ جو بھی کر لیں آُپ اپنی زندگی اور بچوں میں مگن ہو چکے ہوتے ہیں۔ 'آپ کے دماغ پر اپنا شوہر یا بچے یا بیوی بچے سوار ہوتے ہیں۔  آپ اپنے والد یا والدہ کو کتنا وقت دیں گے؟ پورے دن میں صرف چند منٹ ، مگر جس طرح ایک جیون ساتھی چوبیس گھنٹے ساتھ رہ کر خیال کرتا ہے وہ شادی شدہ اولاد نہیں کر پاتی جس کی وجہ سے بزرگ تنہائی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہم نے بھی اپنے والد کو اس کیفیت سے دوچار دیکھا۔'

شانزے سعید کے والد 11 برس پہلے انتقال کر گئے تھے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شانزے کا کہنا تھا ' یہ ہمارے معاشرے کا ایک کڑوا سچ ہے جس سے والدین کو کسی نہ کسی عمر میں گزرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں اگر خاتون ادھیڑ عمر میں بیوہ ہوگئی ہے اور وہ دوبارہ شادی کا سوچے تو اسے گناہ تصور کیا جاتا ہے یا کہا جاتا ہے کہ لو جی اس عمر میں انہیں شرم نہیں آتی، اب تو اللہ اللہ کریں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تنہائی جان لیوا ہو سکتی ہے خاص طور پر تب جب آپ کی ساری اولاد شادی شدہ ہو۔  

'میرے والد کے بعد میری امی بھی  بہت مشکل زندگی گزار رہی  ہیں جبکہ میں اور میرے سب بھائی شادی شدہ ہیں اور بھائی ملک سے باہر ہیں۔ یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ والدین میں سے کوئی ایک دنیا سے تب چلا جاتا ہے جب انہیں ایک دوسرے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

'میں کوشش کرتی ہوں کہ جتنا ممکن ہو میں ان کی طرف جا کر ان کے بیشتر کام کر دوں مگر اس سے زیادہ میں بھی نہیں کر سکتی کیونکہ میرے اپنے بچے اور گھر ہیں جن کا خیال رکھنا بھی میری ذمہ داری ہے۔ امی دوسری شادی سے گھبراتی ہیں انہیں معاشرے سے زیادہ خاندان والوں کی فکر ہے کہ وہ کیا کہیں گے یا انہیں کس نظر سے دیکھیں گے؟ میری خواہش ہے کہ میں اپنی والدہ کو  دوسری شادی کے لیے راضی کر سکوں۔'

ہم نے سوشل میڈیا پر موجود خواتین کے ایک گروپ 'سکیری امی' میں یہ سوال پوسٹ کیا کہ اگر والدین میں سے کوئی ایک  چلا جائے اور دوسرا اکیلا رہ جائےَ تو کیا کرنا چاہیے ، کیا انہیں دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہیے یا پھر وہ اس شادی شدہ اولاد جو اپنی زندگی میں مگن ہے کے سہارے باقی زندگی گزاریں،  یا انہیں شادی صرف یہ سوچ کر نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

اس سوال کے جواب میں مریم شاہد عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ وہ تین بہن بھائی ہیں۔ وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں جب ان کی والدہ نے ان کے والد اور بچوں کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر لی۔ جبکہ والد ایک لمبے عرصہ تک غیر شادی شدہ رہے جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو  بابا کو سمجھایا کہ وہ شادی کر لیں اور بالآخر وہ مان گئے میں اسلام آباد یونیورسٹی سے ماسٹر کر رہی تھی جب بابا نے شادی کی اور اب تو میرا دو سال کا ایک بھائی اور بھی ہے۔ '

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ  بہت سی خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کیا جن میں سے بیشتر کا یہ کہنا تھا کہ دوبارہ شادی کرنے کے فیصلے کا اختیار صرف اکیلے رہ جانے والے ماں یا باپ کو ہونا چاہیے بچوں کا اس میں عمل دخل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ بچوں کو باری باری والد یا والدہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے اس طرح وہ تنہا محسوس نہیں کریں گے۔

علینہ نے لکھا کہ یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ اس مسئلے کو لے کر ہمارا معاشرہ اتنی تنگ نظری کا مظاہرہ کیوں کرتا ہے؟ اگر ذرا بڑی عمر میں آپ کی زندگی کا ساتھی چلا جاتا ہے اور آپ پھر سے اپنی زندگی میں کسی کو شامل کرنا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں؟ شادی ایک رفاقت ہے، عمر اور رتبے سے قطع نظر  ہر انسان کا حق ہے کہ کوئی ہو جس سے وہ بات کرسکیں اور ان کے ساتھ رہ سکیں۔

ندا لکھتی ہیں کہ والدین ساری زندگی بچوں کو پالتے، پڑھاتے لکھاتے، ان کے گھر بساتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس کے بعد بچوں کو ان سے مزید قربانیاں مانگنی چاہئیں۔

اگر آپ تنہا نہیں رہ سکتے تو آپ اکیلے رہ جانے والے والد یا والدہ سے اس کی امید کیوں کرتے ہیں کہ وہ تنہا اور دوسروں کے رحم و کرم پران کے گھروں میں جھجھک کر باقی کی زندگی گزاریں؟ میرے خیال میں اگر دوبارہ شادی ممکن ہو تو ضرور کرنی چاہیے، لوگ تو کسی بھی حال میں بات کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ آپ کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔

کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض اوقات والدین میں سے تنہا رہ جانے والے کی شادی بچے جائیداد کی تقسیم کے ڈر سے بھی نہیں ہونے دیتے اس لیے بہتر ہے کہ مالی معاملات زندگی میں ہی طے کر لیے جائیں اور اس کے بعد اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزاری جائے۔

کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ سماجی رابطوں پر ایسی باتیں کرنا بڑی اچھی لگتی ہیں مگر جب آپ اس صورتحال میں ہوں تو لوگ اپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور آپ خود بھی ایسا قدم اٹھانے والوں کے بارے میں منفی بات ہی کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین