ہماری اعلیٰ عدلیہ کیا چاہتی ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمے کا مختصر فیصلہ اب عوامی ملکیت ہے اس لیے اس کے ہر پہلو کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ  مقدمے میں سب سے بڑا مسئلہ مختصر فیصلہ ہے (اے ایف پی)

ہماری عدلیہ کی تاریخ زیادہ قابل فخر نہیں رہی اور ہمارے جمہوری سفر میں رکاوٹیں ڈالنے میں اعلیٰ عدلیہ پیش پیش رہی ہے۔ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کی بغاوتوں کو قانونی چھتری مہیا کی جبکہ سول قیادت کے ساتھ ہمیشہ قانون سے بالا غیرآئینی طریقے اختیار کیے۔

آمروں کو تو آئین تک میں ترامیم کی اجازت دی جبکہ منتخب رہنماؤں کو یا تو پھانسی پر چڑھایا گیا یا پھر مضحکہ خیز طیارہ اغوا جیسے مقدموں میں سزا دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کا حالیہ مختصر فیصلہ بھی شاید ہماری تاریخ میں ایسے ہی دیکھا جائے گا۔

عاقل ندیم کا یہ کالم آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

پانامہ مقدمے کے متنازع فیصلے میں جہاں اعلیٰ عدالت نے قانون کے بنیادی اصولوں اور بنیادی حقوق کے برعکس اپیل کے راستے بند کیے وہ سلسلہ اس فیصلے میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ اب ہر جج کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ وہ فیصلہ کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ ان کا فیصلہ کسی ادارے کو ناپسند تو نہیں ہوگا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمے کا مختصر فیصلہ اب عوامی ملکیت ہے اس لیے اس کے ہر پہلو کا تنقیدی جائزہ ضروری ہے۔ یہ مختصر فیصلہ ایک طرح سے اداروں کو ججوں کے خلاف جاسوسی کرنے اور ان کے خلاف مواد جمع کرنے کی کھلی چھٹی بھی دے رہا ہے کیونکہ اس فیصلے میں ریفرنس کو تو کالعدم قرار دیا گیا مگر اس کی کوئی وجوہات بیان نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس کے موجد کے لیے نتائج کی نشاندہی کی گئی۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسے کسی مختصر فیصلے میں ہمیشہ چیدہ چیدہ اہم وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔

ممتاز قانونی ذہن سمجھتے ہیں کہ ان وجوہات کی مختصر تفصیل دیے بغیر جسٹس قاضی عیسیٰ کو ہراساں کرنے کا راستہ کھلا رکھتے ہوئے ایف بی آر کو مزید تحقیق کرنے کو کہا گیا ہے۔ مزید برآں ایف بی آر کے معمول کے طریقہ کار اور قانون سے ہٹ کر اس تحقیق کا نتیجہ اور سفارشات سپریم جوڈیشل کونسل کے آگے پیش کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ یہ طریقہ کار قانونی ذہنوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ عدالت نے قانون سے ہٹ کر یہ راستہ کیوں منتخب کیا؟

کیا پہلے کبھی ایف بی آر نے کسی ٹیکس دہندہ کے مقدمے میں اس کے خلاف اپنے طریقہ کار سے ہٹ کر سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنی سفارشات بھیجی ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ایک عام پاکستانی کے طور پر مسز عیسیٰ کے خلاف یہ غیر روایتی اور بظاہر غیرقانونی راستہ کیوں اختیار کیا گیا؟ کیا اب سے ہر ٹیکس نادہندہ کے خلاف ایف بی آر اپنی سفارشات کونسل کو بھیجا کرے گا؟

کیا صرف مسز عیسیٰ پر پانچ سال سے زائد ٹیکس کی تفصیلات مہیا کرنے کی ذمہ داری ہوگی یا یہ سارے پاکستانی ٹیکس دہندگان پر لاگو ہوگا؟ کیا یہ عمل موجودہ ٹیکس قوانین کے مطابق بھی ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو یہ قانون سے ہٹ کر روش پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کیوں اختیار کر رہی ہے؟

کیا یہ طریقہ کار ایک عام پاکستانی کو ٹیکس کے نظام میں کمشنر کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق سے محروم نہیں کرے گا؟ عدالت عالیہ تو بنیادی حقوق کی محافظ ہے تو وہ عام پاکستانیوں کو ان کے قانونی حقوق سے کیسے محروم کر سکتی ہے؟

چوہدری اور نثاری دور کے بعد سے کچھ قانونی ماہرین کی نظر میں ہماری عدالت اپنے فیصلوں میں نئے قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے جو قانون کی کتابوں میں یا ہمارے آئین میں جگہ نہیں پاتے۔ ہمارا آئین عدالتوں کو قانون سازی کا اختیار نہیں دیتا لیکن حالیہ کچھ فیصلوں سے ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے مقننہ کا کام کرتے ہوئے فیصلوں کے ذریعے نئے قوانین بنائے کی کوشش کی ہے۔

اس مقدمے میں سب سے بڑا مسئلہ مختصر فیصلہ ہے۔ ماہرین قانون اور عام لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس مختصر فیصلے کی کیا ضرورت تھی اور اس کے لیے تفصیلی فیصلے پر کیوں انحصار نہیں کیا گیا۔

یہ مقدمہ تقریباً ایک سال سے عدالت کے زیر غور تھا اور اس کی تقریباً 40 سے زیادہ سماعت ہو چکی تھیں۔ اگر سماعتوں پر اتنا وقت صرف کیا گیا تو تفصیلی فیصلے پر کچھ ہفتے کیوں نہیں لگائے جا سکتے تھے جس سے یہ قانونی گومگو کی کیفیت نہ پیدا ہوتی۔ اس مختصر اور غیر واضح فیصلہ جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وہ سوالات ہیں جو قانونی ماہرین اور عوام کے ذہنوں میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔ یہ مختصر فیصلہ تشنا ہے اور اس کا جلدی میں جاری کرنا ذہنوں میں عدالتی فیصلے کے بارے میں شکوک پیدا کر رہا ہے۔

یہ فیصلہ بلند آواز میں ججوں کے لیے ایک طرح کا کھلا انتباہ ہے کہ اب ان کے فیصلوں کی وجہ سے ان کا احتساب کیا جاسکے گا اور انہیں اداروں اور حکومتوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ کچھ قانونی ماہرین کی نظر میں بنیادی طور پر یہ فیصلہ پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی ابتدا ہے۔

اس فیصلے سے حکومت کو ایک اور موقع دیا گیا ہے کہ وہ بہتر طریقے سے اپنا کیس تیار کرے اور جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے ریفرنس میں جو بنیادی نقائص تھے یا کوئی کمی رہ گئی تھی تو اب ان کو دور کر کے زیادہ بہتر طریقے سے تیار ہو کے سپریم جوڈیشل کونسل میں آئے۔

اس فیصلے نے صدر پاکستان کی سفارشات کو تو دھیان نہیں دیا لیکن اب وہ ایف بی آر کے کمشنر کے خیالات اور سفارشات کو زیادہ توجہ سے سنے گی اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔

ہمارے ہاں کمزور نوکرشاہی عموماً اس طرح کے ادارہ جاتی تنازعات میں فیصلہ دینے سے پہلے فریقین کی طاقت کا اندازہ کرتی ہے اور اسی بنیاد پر اپنی سفارشات یا فیصلے دیتی ہے۔ اس لیے کیا مسز عیسیٰ کو ایف بی آر سے کسی قانون اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے کی امید رکھنی چاہیے؟

اس مختصر فیصلے نے ماہرین قانون کی نظر میں عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور قانون دانوں کی برادری اور سول سوسائٹی کو اس چیلنج کا آگے بڑھ کر قانونی طور پر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ