شہنشاہ اکبر سے لے کر دورِ عمران تک مہنگائی کتنی بڑھی؟

آج سے ایک صدی پہلے چھپنے والے ایک رسالے میں اکبر کے دور میں اجناس کی قیمتوں کا دلچسپ جائزہ لیا گیا ہے۔

(عمران خان: ذوالفقار آذین، اکبر پبلک ڈومین)

پچھلے دنوں ہمارے دوست اور معروف شاعر اور مترجم منیر فیاض نے ایوب خان کے دور میں چینی کے نرخوں میں اضافے اور اس پر اس دور میں ہونے والے ردعمل کے بارے میں ایک پوسٹ لگائی، جس پر خاصی لے دے ہوئی۔

بہت سے دوستوں نے کمنٹس میں دونوں ادوار کے نرخوں کا موازنہ کیا۔ کسی نے ایوب خان کے دور حکومت کو سنہری دور قرار دیا اور موجودہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تو کسی نے اس کے برعکس موجودہ مہنگائی کو گذشتہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں سے تعبیر کیا اورعمران خان ہی کو اس قوم کا نجات دہندہ قرار دیا۔
ہم معاشیات کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمارے وزیر سائنس فواد چوہدری سائنس کے بارے میں۔ سو مہنگائی کیوں ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے، اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنا ایسے ہی جیسے مفتی منیب الرحمٰن صاحب ہمیں چاند کی گردش اوراس سے پیدا ہونے والے سمندری جوار بھاٹے کے بارے میں لیکچر دینا شروع کر دیں۔

معاشیات اور افراطِ زر کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جان کر بھی ہمیں اپنے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو پھر کم نہیں ہوتی۔ اس بات پر یقین اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ہم پرانی کتابوں میں اشیا کے نرخوں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


ہمارے سامنے اس وقت ماہنامہ ’آفتاب‘ کا ایک شمارہ موجود ہے۔ یہ شمارہ آج سے ایک سو سال پہلے اکتوبر 1920 میں منظر عام پر آیا تھا۔ آئیے اس میں مہنگائی کے حوالے سے دیے گئے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ مضمون کا عنون ہے: ’اناج کا نرخ‘ اور اس کی ذیلی سرخی حافظ شیرازی کا وہی مصرع ہے جس پر ہم نے گذشتہ کالم کا اختتام کیا تھا۔ یعنی: بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

یہ رسالے کے مدیر آغا شاعر قزلباش دہلوی کی طرف سے ایک نوٹ ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’شہنشاہ اکبر کے زمانے میں اناج کی جو بہتات تھی اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد سے ہو سکتا ہے۔
گندم پونے پانچ آنے من
چاول آٹھ آنے من
دال مونگ پونے آٹھ آنے من
دال موٹھ پونے پانچ آنے من
باجرا ساڑھے پانچ آنے من
نمک سوا چھ آنے من
شکر ایک روپیہ سوا چھ آنے من
پیاز ڈھائی آنے من
گھی دو روپیہ دس آنے من
تیل دس آنے اور ہلدی چار آنے من
یہ تو بادشاہی وقتوں کی برکت تھی۔ اس کے بعد انگریزی عمل داری کے شروع میں غلہ کافی سستا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا عہد 1857
1857 میں گہیوں 39 سیر فی روپیہ
چنے ایک من ساڑھے 19 سیر فی روپیہ

چاول ساڑھے 18 سیر
گھی چار سیر اور دودھ چار من روپیہ کا ملتا تھا۔ یعنی ایک پیسہ کا اڑھائی سیر۔
ملکہ وکٹوریہ کا عہد 1890
1890 میں گندم 25 سیر فی روپیہ، چنے 28 سیر، چاول 12 سیر، گھی دو سیر فی روپیہ اور دودھ تین پیسہ سیر ملتا تھا۔ یہ حالت بھی غنیمت تھی۔‘
اس کے بعد مدیر موصوف گذشتہ دو برسوں یعنی 1918 اور 1919 میں ہونے والی ’ہوش ربا‘ مہنگائی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’حال کے ان دونوں سال کی ہولناک گرانی اظہر من الشمس ہے، جس سے خلقت الاماں پکار رہی ہے، کیوں کہ گندم روپیہ کی آٹھ سیر۔ چنے چھ سیر۔ دال تین سیر اور گھی ساڑھے پانچ چھٹانک ملتا ہے۔ دودھ جس میں آدھا پانی چار سیر۔
 اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور گورنمنٹ عالیہ کو انسداد کی توفیق بخشے۔
اکبر کے زمانہ میں خرچ خوراک پانچ آنے ماہوار سے زیادہ نہ ہوتا تھا، مگر اب دس روپیہ ماہوار پر بھی ایک آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔‘
مہنگائی ساری دنیا میں بےشک بڑھ رہی ہو مگر ہمارے ہاں اس کی شرح دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ سو ہم بھی اپنے ’پیٹی بھائی‘ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی طرح یہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور گورنمنٹ عالیہ کو انسداد کی توفیق بخشے۔
’ایوب‘ کے زمانے میں خرچ خوراک ’سو روپے‘ ماہوار سے زیادہ نہ ہوتا تھا مگر اب ’دس ہزار‘ ماہوار پر بھی ایک آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ