سی ایس ایس کا امتحان سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ کی پہنچ سے باہر

2019 کے سی ایس ایس میں کامیاب سرفہرست 100 امیدواروں کا تعلق زیادہ تر غیرملکی یا پاکستان کی اعلیٰ نجی جامعات سے ہے۔ ان میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن، آکسفورڈ لندن، اور ان کے علاوہ سب سے زیادہ کامیاب امیدواروں کا تعلق لاہور کے نجی ادارے لمز سے ہے۔

'اگر پانچ سے چھ سال پہلے کے نتائج دیکھیں تو پوزیشن لینے والوں اور پاس ہونے والے امیدواروں کی اکثریت پاکستانی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تھی۔' (ٹوئٹر)

پاکستان میں سینٹرل سپیئریر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحان کو ہمیشہ سے امیدوار خوشحال مستقبل کی ضمانت اور ملک کی خدمت سمجھ کر پاس کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن گذشتہ تین سالوں سے ان امتحانات میں پہلی پوزیشن غیر ملکی جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ نے حاصل کی ہیں۔

اس کے علاوہ اگر 2019 کے سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے پہلے 100 امیدواروں کے ریکارڈ کا مشاہدہ کریں تو وہ یا توغیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہیں یا پھر پاکستان کی نجی و اعلیٰ سرکاری یونیورسٹیوں سے پڑھے ہیں۔

اس کے مقابلے پر بڑی سرکاری یونیورسٹیوں کے طلبہ کی ان امتحانات میں کامیابی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔

اس کی ممکنہ کیا وجواہات ہیں انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

سی ایس ایس میں کامیابی کا معیار:

سی ایس ایس امتحانات کے 2020 میں آنے والے نتائج کرونا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں جبکہ سی ایس ایس ایگزام فورم کے مطابق 2019 کے امتحانات میں پہلی پوزیشن لینے والے رانا حیدر طاہر نے یو سی ایل سکول برطانیہ اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی امریکہ سے تعلیم حاصل کی۔

اسی طرح 2018 میں پہلی پوزیشن اپنے نام کرنے والی شانزہ فائق نے وارک یونیورسٹی برطانیہ جبکہ 2017 میں فرسٹ آنے امیدوار اویس ارشاد بھی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے امریکہ اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ سی ایس ایس کے حالیہ امتحانات کے نتائج کا جائزہ لیں تو 2019 میں سی ایس ایس کے کامیاب ہونے والے سرفہرست 100 امیدواروں کا تعلق بھی غیرملکی یا پاکستان کی اعلیٰ جامعات سے ہی ہے۔ جن میں سے واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی، لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے علاوہ سب سے زیادہ کامیاب امیدواروں کا تعلق لاہور کی ایلیٹ کلاس کے ادارے لمز سے ہے۔

اسی طرح نسٹ، آئی بی اے، یو ای ٹی لاہور اور ٹیکسلا کے طالب علم شامل ہیں۔

پہلے سو میں سے باقی کامیاب امیدوار کنگ ایڈورڈ کالج، یونیورسٹی آف پنجاب اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹس ہیں۔

اسی تقسیم کو مزید تقسیم کیا جائے تو پہلے سو کامیاب امیدواروں میں سے 15 کا تعلق لمز سے ہے، 11 یو ای ٹی لاہور اور ٹیکسلا کے گریجویٹس ہیں۔ پہلے سو کامیاب امیدواروں میں نسٹ کے 10، جب کہ پانچ کا تعلق کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ہے۔ دو کامیاب امیدوار لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں۔

کامیابی کا معیار عام طلبہ کی پہنچ سے باہر کیوں؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ماہر تعلیم تجزیہ کار رسول بخش رئیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سی ایس ایس یا پی سی ایس میں صرف غیر ملکی تعلیمی اداروں کے طلبہ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن اکثریت انہی کی ہوتی ہے جو پاکستان میں بنیادی تعلیم اچھے سکول و کالجز سے لے کر غیرملکی معیاری اداروں سے گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں لیتے ہیں۔

رسول بخش رئیس نے کہا کہ اگر پانچ سے چھ سال پہلے کے نتائج دیکھیں تو پوزیشن لینے اور پاس ہونے والے امیدواروں کی اکثریت پاکستانی جامعات سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تھی، ’مگر کچھ سالوں سے پاکستانی پبلک یونیورسٹیز میں اساتذہ خود زیادہ تجربہ کار یا اعلیٰ تعلیم یافتہ کم ہوتے جارہے ہیں۔‘

’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ڈگریوں اور تعلیمی اہلیت زیادہ رکھنے والے اساتذہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جس کا فائدہ بڑی پرائیویٹ یونیورسٹیز اٹھاتی ہیں اور وہاں کے طلبہ سرکاری جامعات کے طلبہ پر سبقت لے جاتے ہیں۔ کیونکہ لمز، نسٹ وغیرہ ان اعلیٰ تعلیم اور زیادہ تجربہ رکھنے والے اساتذہ کو اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی قابلیت کے ساتھ تعلیم دینے کا طریقہ کار اور سنجیدگی بھی پاکستان کے اداروں سے زیادہ ہے اسی لیے وہاں سے پڑھنے والے یہاں مقابلے کے امتحانات میں اپنی قابلیت سے خود کو منوا لیتے ہیں۔

رسول بخش رئیس کے مطابق موجودہ صورتحال میں ملکی یونیورسٹیز کے ساتھ بنیادی تعلیم فراہم کرنے والے سکول کالجز میں نظام اپ گریڈ اور معیاری بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہاں بھی اعلیٰ معیار کے اساتذہ کو تعینات کیاجائے تاکہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی زیادہ تعداد میں مقابلہ کے امتحانات میں دوبارہ اپنی صلاحیتیں منوا سکیں۔

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے تعینات ہونے والے پنجاب پولیس کے ایس ایس پی رانا مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چار بھائی سی ایس ایس پاس کر کے افسر بنے لیکن انہوں نے2004 سے پہلے امتحانات دیے اور کامیاب ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ غیر ملکی اور پاکستان کی مخصوص نجی و سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلہ میں عام سرکاری جامعات کے طلبہ کا مقابلہ کے امتحانات میں کامیابی کا تناسب تیزی سے کم ہوا ہے۔

’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑے اداروں میں تیاری کے علاوہ پہلے سے ہی معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ جب کہ عام جامعات پہلے کی نسبت معیاری تعلیم پر کم توجہ دیتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پبلک سکول کالجز اور جامعات سے پڑھنے والے جو طلبہ مقابلے کے امتحانات پاس بھی کرتے ہیں تو وہ ان کی اپنی صلاحتیں اور گھر والوں کا تعاون ہوتاہے۔ لیکن غیر ملکی اور معیاری تعلیمی اداروں میں بنیادی تعلیم سے پوسٹ گریجویشن تک ہر طرح کی صلاحیتیں اجاگر کی جاتی ہیں جو ان امیدواروں کو ہر طرح سپورٹ کرتی ہیں۔‘

ان کے خیال میں خاندان کے دیگر افراد اگر سی ایس ایس افسران ہوں تو ان کے ہوتے ہوئے نئے امیدواروں کو کافی مدد ملتی ہے، ان کے برعکس ایسے امیدوار جن کے خاندان میں وہ خود سب سے پہلے سی ایس ایس یا پی سی ایس کی تیاری کرنے والے فرد ہوں انہیں بنیادی قواعد وضوابط اور سلیبس کا دوسروں سے معلوم کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں عام تعلیمی اداروں سے پڑھ کر اور غیر ملکی اور پاکستان کے معیاری تعلیمی اداروں کے طلبہ کا مقابلہ کافی مشکل ہوتاجارہاہے۔اس لیے عام سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر کرنا ناگزیر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس