'ایرانی حکومت غیرت کے نام پر قتل کی سہولت کار ہے'

ایرانی حکومت رومینہ، فاطمیہ اور ریحانہ جیسی مقتولوں کی حمایت کرنے کی بجائے ان لوگوں کی حمایت کرتی ہے جو لڑکیوں اور خواتین کو اپنے باپوں اور شوہروں کی املاک کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ایران میں غیرت کے نام پر قتل اسلامی انقلاب کے ساتھ شروع نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے(انڈپینڈنٹ فارسی)

رومینہ اشرفی کی عمر 14 سال، فاطمہ براہی کی نو اور ریحانہ عامری کی 22 سال تھی۔ ان میں سے ہر ایک کو ان کے قریبی رشتہ داروں نے قتل کر دیا۔ قتل کے ان اندوہناک واقعات نے حالیہ ہفتوں میں عالمی برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی جس کی بہت ضرورت بھی تھی۔

بطور ایک ایسی نوجوان خاتون، جن کی دو چھوٹی بہنیں ہیں اور جن میں سے ایک کی عمر 15 سال ہے، میں قتل کے ان واقعات اور ان میں ملوث افراد کو ملنے والی معمولی سزاؤں کے بارے میں پڑھ کر شدید اذیت محسوس کرتی ہوں۔ میں ہر روز اس گھر کے لیے شکرگزار محسوس کرتی ہوں جہاں میں پلی بڑھی۔ خاص طور پر اپنے والد کے معاملے میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں۔

حالانکہ زیادہ تر لوگ جب بالغ ہوتے ہیں تو انہیں سمجھ آتی ہے کہ ان کے والدین ویسے مکمل افراد نہیں تھے جیسے وہ ان کے بچپن میں دکھائی دیتے تھے۔ اپنے والد کے معاملےمیں مجھے یہ احساس کبھی نہیں ہوا۔

میرے والد، جنہیں میں جانتی ہوں، وہ ایک انتہائی عزت دار شخص ہیں۔ میرے لیے وہ مہربان بھی ہیں اور مضبوط بھی۔ وہ ایسے شخص ہیں جن کی بدولت میں ایسا جسمانی اور جذباتی تحفظ محسوس کرتی ہوں جس کے سائے میں ہماری پرورش ہوئی، حالانکہ ہمیں اکثر سیاسی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

میرے  والد نے مجھ میں اور میری بہنوں میں خود داری پیدا کی ہے۔ اگرچہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ شفیق شخص نہیں ہیں خاص طور پہ تب جس وقت ہم میں سے کوئی پرواز لینے کے لیے روانگی کے وقت کار میں سوار ہونے کے لیے زیادہ دیر کرے، کیونکہ والد چار گھنٹے پہلے ہوائی اڈے پہنچنے پر اصرار کرتے ہیں۔

رومینہ، فاطمہ اور ریحانہ سمیت ایران کی لاکھوں خواتین اس کے برعکس ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جہاں ان کی زندگیاں حقیقی معنوں میں ان کی نہیں تھیں۔ ان کی پرورش اس انداز میں نہیں ہوئی کہ وہ آزاد اور قابل احترام محسوس کرتیں بلکہ اس کی بجائے انہیں ذاتی جاگیر بنا دیا گیا۔

وہ اس جنون اور خطرناک عقائد کا نشانہ بنیں جو ہمارے پورے ملک سمیت مشرق وسطیٰ میں کئی جانیں لے چکا ہے۔ مجھے علم ہے کہ اس سے پہلے بھی غیرت کے نام پر قتل ایران میں ایک معاشرتی مسئلہ تھا۔ تاہم سچی بات یہ ہے کہ میں مسئلے کی سنگینی کے بارے میں نہیں جانتی تھی اور مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس کی جڑیں ہمارے وطن میں اتنی گہری ہیں۔

بہت سے خاندانوں میں یہ سوچ اتنی گہری ہو گئی ہے کہ مرد اپنی بیٹیوں کے قتل کی ذمہ داری لیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی مرضی کی سزا بھی پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جیسے کسی نے کوئی غلط لیکن بے ضرر کام کرلیا ہو۔ ان خیالات کو گھر سے باہر اس معاشرے کی حمایت حاصل ہے جس پر مردوں کا غلبہ ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جسے ایران نے  پروان چڑھایا ہے اور جہاں لڑکیوں کے مدد طلب کرنے کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی۔

جوں جوں قتل کے واقعات کی مزید تفصیلات سامنے آئیں، میری تکلیف میں اتنا ہی اضافہ ہوا۔ رومینہ کا قتل ایک مسلسل عمل کا حصہ تھا۔ یہ پتہ چلنے کے بعد کہ ان کی ایک لڑکے کے ساتھ دوستی ہے اور جسے ان کے والد نے کبھی قبول نہیں کیا، ان کے والد چوہوں کو مارنے والا زہر لائے اور اپنی بیوی پر زور دیا کہ وہ رومینہ کو قائل کریں کہ وہ اپنی زندگی ختم کر لیں۔ اس طرح خود انہیں شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کم از کم رومینہ خود کو پھانسی ہی دے سکتی ہیں۔ بالآخر اپنے وکیل سے اس بارے میں مشورہ کرنے کے بعد کہ انہیں طویل سزا نہیں ہو گی، انہوں نے سوتے میں بیٹی کا گلا درانتی سے کاٹ دیا۔ عزت کے نام پر قتل کے بھیانک جرائم ایران میں ہونے والی قتل کی وارداتوں کا 30 فیصد ہیں۔

بلاشہ یہ تعداد حقیقی صورت حال کو واضح نہیں کرتی جس کی وجہ ہمیشہ سے ایران کی ان جرائم کی طرف توجہ میں کمی ہے۔ ان حالات میں بہت سے جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ گذشتہ 41 سال میں ایسے جرائم کو حکومت کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔

اس کے باوجود کہ 14 سالہ رومینہ کے قتل نے عوامی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کروائی ہے اور ایران کو اپنی حکمت عملی کے تحت دباؤ کا جواب دینا پڑا، میرے لیے یہ نوٹ کرنے کی بات تھی کہ تینوں قتل ایران کے مختلف علاقوں گیلان، کرمان اور خوزستان میں ہوئے تھے۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ 'غیرت کے نام پرقتل' کی یہ وارداتیں ملک کے بہت سے حصوں میں مزید تیزی سے ہو سکتی ہیں۔ یہ واقعی ایک قومی مسئلہ ہے۔ رومینا سے پہلے فاطمہ اور ریحانہ گیلانی، کرمانی یا خوزستانی تھیں۔ وہ ایرانی تھیں اور تمام ایرانیوں کو قتل کے ایسے واقعات کو رکوانے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمیں لازمی طور پر یہ مسئلہ زیر بحث لانا ہو گا کہ جس میں نہ صرف قتل کے واقعات کے لیے منظم سہولت کاری کرنے والے ایران بلکہ اس کے پیچھے موجود ثقافتی طاقتوں کو بھی موضوع بنانا ہو گا۔

ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں سوشل میڈیا کا طاق تور نیٹ ورک ہمیں ایسے مباحثوں کا موقع فراہم کرتا ہے جن کی بدولت خود پر عائد سنسرشپ سے بچ کر گزرا جا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے میں ایران میں کبھی نہیں رہی لیکن بنیادی طور پر میرے مشیر میرے والدین اور نانی ہیں۔ جب میں نے نانی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اگرچہ اس معاملے کی جڑیں سماجی روایات میں ہیں لیکن حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی زندگی کو تحفظ  فراہم کرے چاہے یہ تحفظ خود ان کے اپنے خاندانوں سے ہی کیوں نہ ہو۔

مغربی ملکوں میں جدید قوانین سے لیس ریاستیں تیزی سے ان والدین کے خلاف حرکت میں آتی ہیں جو اپنے بچوں کو بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہاں تک کے بچے کو والدین کی تحویل سے لے کر ریاست کی سرپرستی میں دے دیا جاتا ہے۔

جب میں نے پڑھا کہ رومینہ کی درخواستوں کے باوجود، کہ انہیں ان کے سخت گیر والد کی تحویل میں واپس نہ دیا جائے، انہیں بے رحمانہ انداز میں واپس بھیج دیا گیا تو میں غصے سے سلگ اٹھی۔

میری نانی نے بہت سے عظیم مردوں اور خواتین کے بارے میں بتایا جنہوں نے انقلاب سے پہلے ایران میں جدید قوانین کی تیاری کے لیے کام کیا تھا تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مجھے اپنی قوم کے ان بہیمانہ حالات اور اسے پیچھے کو جاتے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔

انہوں نے مجھے مہرانگیز منوچہریائی کے بارے میں بتایا جنہوں نے عائلی تحفظ کا قانون بنانے اور اس کی توثیق کے لیے بہت جانفشانی سے کام کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کا ایک جدید قانون تھا لیکن خمینی نے اسے 'مسلمان خاندان کا خاتمہ' قرار دے کر اس پر حملہ کیا اور 1979 میں اسے منسوخ کرنے کا حکم دے دیا۔

خود اس عمل سے خمینی اور ان کے ساتھیوں کی خواتین سے دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔ میرے دادا (شاہ ایران رضا شاہ پہلوی) نے عائلی تحفظ کے قانون کی توثیق کی بھرپور حمایت کی تھی۔ انہوں نے غیرملکی رپورٹروں کو بتایا کہ وہ اس پر کتنا فخر کرتے تھے۔ خمینی نے اقتدار سنھبالنے کے بعد ایک ماہ میں اس قانون کو ختم کردیا۔

ایران میں غیرت کے نام پر قتل اسلامی انقلاب کے ساتھ شروع نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔ یہ خامی رکھنے والی روایات ہیں جن میں ایک عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے ایسے جرائم بڑھتے ہیں۔ لیکن حکومتوں کا وجود لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے سوا کس لیے ہے؟ ان ظالمانہ کارروائیوں کا مسئلہ ایسے قوانین کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے جو خواتین کو تحفظ فراہم کریں اور انتظامی سطح پر ان قوانین کو بھرپور حمایت حاصل ہو۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایران اس کی بجائے ان کی حمایت کرتا ہے جو رومینہ، فاطمہ اور ریحانہ کو ان کے والد یا خاوند کی ملکیت سمجھتے ہیں۔


یہ مضمون پہلے دی انڈپینڈنٹ فارسی میں شائع ہوا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر