کاش ’میں نہیں بتاؤں گا‘ ہماری قومی پالیسی ہوتی

ضمیر اختر نقوی صاحب، آپ نے وہ کہا ہے، جو ہم سب دن میں دس بار کہنا چاہتے ہیں۔ بس ہمت نہیں ہوتی۔ شاید ہم کہنا شروع کریں تو لوگ پوچھنا بند کر دیں۔

(پکسا بے)

’میں نہیں بتاؤں گا،‘ یہ الفاظ سنتے ہی ضمیر اختر نقوی صاحب کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔

ان کے اکثر جملوں کو ایسے ہی مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔ ٹی وی پر اینکرنے سوال داغا، یہاں سے جواب آیا، ’میں نہیں بتاؤں گا۔‘ اینکر نے قائل کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ ویسے بھی پاکستانی چینلوں پر میزبانوں کو اپنے سوال کا من پسند جواب ہی چاہئے ہوتا ہے، ورنہ وہ چیخ کر بھی یہ جواب نکلوانے کا ہنر جانتے ہیں۔ عام طور پر ایسے جواب کی توقع کم از کم ہمارے کسی اینکر کو نہیں۔

کیا خوب جملہ ہے، کاش کہ اسے ہم خود پر لازم کر لیں۔ بحیثیت قوم ہمارا قومی کھیل دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنا ہے (یقینا بظاہر ہاکی اورعملاً کرکٹ ہے)۔ یہ کھیل کھیلتے ہوئے دن میں دس بار ہم دوسروں کی زندگیوں کے بخیے ادھیڑتے ہیں اورنہ ختم ہونے والے سوالات کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔ کاش کہ ہر اس وقت جب ہم کسی سوال کا جواب نہ دینا چاہیں، ہم یہ جملہ ادا کر سکیں۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں لوگوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اور ناپسند کیا جاتا ہے۔ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جتنی بات کوئی خود اپنے بارے میں بتائے وہ سن لیں اور غیر ضروری سوالات سے پرہیز کریں۔ اگر کوئی سوال کرناانتہائی ضروری بھی ہو تو پہلے یہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا یہ بات پوچھی جا سکتی ہے۔ اور اس میں اگلا شخص انکار کا حق بھی رکھتا ہے اور انتہائی سہولت سے منع بھی کر دیتا ہے۔ دونوں طرف ہی برا ماننے کا رواج نہیں۔

ہمارے یہاں معاملہ مختلف ہے۔ ہم اپنے آس پاس موجود لوگوں کی ذاتیات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو باتیں وہ خود بتائیں وہ ٹھیک، جو نہ بتائیں ان کا مختلف ذرائع سے سراغ لگانا اور بات کی کھال نکالنا، پھر اسے مزید لوگوں تک پہنچانا ہمارے مشاغل میں شامل ہے۔ اور اس پورے عمل میں وہ شخص لاکھ چاہنے کے باوجود یہ جرات نہیں کر سکتا کہ ایک بار کہہ دے، ’میں نہیں بتاؤں گا‘ کیونکہ ہمارے یہاں پرائیویسی کا دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیدائش سے لے کر موت تک کے دورانیے میں زندگی کے جو مراحل آپ پر گزرتے ہیں، ان کے حوالے سے بھرپور سوالات کرنا، ان کی تفصیل جاننا اور پھر حسب توفیق اس پر نکتہ چینی کر کے آگے بڑھانا ہمارے یہاں رشتے داروں، پڑوسیوں، دوستوں کا حق سمجھا جاتا ہے اور آپ زندگی بھر پابند ہوتے ہیں کہ لوگوں کے کیے گئے سوالات کے اطمینان بخش جوابات دیں۔ یہ سلسلہ اکثر تکلیف دہ ہوتا ہے بالخصوص ان معاملات میں جو آپ کے نزدیک انتہائی ذاتی ہوں۔

 تنخواہ کتنی ہے، کتنے بجے گھر آتے ہیں، کب اور کہاں جاتے ہیں، کن سے ملتے ہیں، بچوں کے سکول کی فیس کتنی ہے، رزلٹ کیا آیا، کاروبار میں کتنا منافع ہو رہا ہے، گھر میں لڑائی کس بات پر ہوئی، کون مہمان آئے ہیں، انھیں کیا کھلایا سے لے کر کس کا فون آیا ہے اور اس نے کیا کہا، تک ہر سوال کا جواب آپ سے مانگا جاتا ہے۔

انفرادی زندگی میں سپیس کا چونکہ ہمارے یہاں کوئی تصور ہی نہیں تو اہل خانہ کی مداخلت ویسے بھی  24گھنٹے میسر ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے پڑوسیوں اور رشتے داروں تک پہنچ جاتا ہے تاکہ وہ بھی فیضیاب ہو سکیں۔

 نجانے کتنی گھڑیاں یا لمحے ایسے ہوتے ہیں جب ہم بھی چیخ چیخ کر کہنا چاہتے ہیں،  ’میں نہیں بتاؤں گا ‘مگر جرات نہیں کر پاتے اور یا تو بتا کر جان کی امان پاتے ہیں یا پھر جھوٹ بول کر چھٹکارا۔

ضمیر اختر نقوی صاحب، آپ نے وہ کہا ہے، جو ہم سب دن میں دس بار کہنا چاہتے ہیں۔ بس ہمت نہیں ہوتی۔ شاید ہم کہنا شروع کریں تو لوگ پوچھنا بند کر دیں۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ