بھارت کے زیر انتظام کشمیر: ہندی زبان مسلط کرنے کی کوششیں تیز

اردو زبان کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوتے ہی بھارتی ٹی وی چینلز بالخصوص 'ٹائمز ناؤ' اور بی جے پی سمیت کئی ایک ہندو تنظیموں نے کشمیر میں 'اردو' کی جگہ 'ہندی' کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے مطالبے پر شور مچانا شروع کردیا ہے۔

(تصاویر- اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت اسی نظریے کی حامل دیگر تنظیموں اور افراد نے یہاں 'اردو' زبان کو ہٹا کر 'ہندی' زبان کو مسلط کرنے  کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

زائد از 130 برس تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی 'اردو' کے خلاف باضابطہ طور پر عدالتی و میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا ہے نیز سخت گیر ہندو تنظیموں بشمول بی جے پی نے اردو کو 'ویلن' کے طور پر پیش کرنے کی 'پروپیگنڈا مہم' تیز کردی ہے۔

کشمیر ہائی کورٹ میں گذشتہ ہفتے ماگھو کوہلی نامی شخص، جنہیں مبینہ طور پر بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کی پشت پناہی حاصل ہے، نے ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے جس میں انہوں نے 'ہندی' کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ہائی کورٹ نے اس عرضی کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں اس سے معاملے پر جواب مانگا گیا ہے۔ عرضی گزار کا استدلال ہے کہ جموں میں ڈوگری اور ہندی زبانیں استعمال ہوتی ہیں اور اردو زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے یہاں (جموں) کے لوگ نا انصافی کا شکار ہیں۔

ماگھو کوہلی کی جانب سے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کے ساتھ ہی کچھ بھارتی ٹی وی چینلز بالخصوص 'ٹائمز ناؤ' اور بی جے پی سمیت کئی ایک ہندو تنظیموں نے کشمیر میں 'اردو' کی جگہ 'ہندی' کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے مطالبے پر شور مچانا شروع کردیا ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ آج جو مہم کشمیر سے 'اردو' کو ہٹانے کے لیے جاری ہے ایسی ہی ایک مہم 2014 میں اس متنازع خطے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خلاف شروع کی گئی تھی جو پانچ اگست 2019 کے فیصلوں پر منتج ہوئی۔

بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے نائب صدر یدویر سیٹھی کا الزام ہے کہ اردو کا جال بن کر ہماری (ہندوؤں کی) زمین اور نوکریاں ہڑپ لی گئی ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں: 'خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب اگر ہندی کشمیر کی سرکاری زبان بنتی ہے تو یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ آنے والے وقت میں سرکاری کاغذات ہندی میں لکھے جائیں گے اور نوکریوں کے امتحانات ہندی میں لیے جائیں گے۔ اس طرح سے ہندی نافذ ہونے سے ہمیں نا انصافی سے نجات ملے گی۔'

ڈوگرہ برہمن پرتیندھی سبھا نامی تنظیم نے سرکاری خط و کتابت کے لیے 'ہندی' کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا ہے: 'چونکہ جموں و کشمیر اب ایک ریاست سے ایک یونین ٹریٹری بن چکی ہے اس لیے ہماری لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو سے اپیل ہے کہ تمام سرکاری فرامین ہندی میں جاری کیے جانے چاہئیں۔'

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے 20 میں سے 15 اضلاع میں لوگوں کی اکثریت اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں کی ہے۔ اب جو پانچ ہندو اکثریتی اضلاع جیسے کٹھوعہ، جموں، سانبہ، ادھمپور اور ریاسی ہیں ان میں بھی 40 سے 50 فیصد آبادی 'اردو' جاننے والوں کی ہے۔

ریونیو اور پولیس جیسے اہم محکموں کا سرکاری ریکارڈ 'اردو' میں ہے۔ طلبا کے لیے دسویں جماعت تک اس زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھنا لازمی ہے۔ اخبارات کے قارئین میں سے 70 فیصد ان کی ہے جو اردو اخبارات خرید کر پڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس کشمیر کے مسلم اکثریتی اضلاع میں دو فیصد لوگ بھی ہندی لکھنا یا پڑھنا نہیں جانتے ہیں۔

کشمیر میں لوگوں کی اردو اور ہندی میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلے کے لیے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امیدوار قسمت آزمائی کرتے ہیں جب کہ اسی یونیورسٹی میں 1956 سے قائم شعبہ ہندی میں بمشکل ہی کوئی طالب علم داخلہ لینے میں دلچسپی لیتا ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر عارفہ بشریٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ پانے کے لیے ان کے شعبے کا رخ کرتے ہیں۔

'چونکہ ہمارے پاس نشستوں کی تعداد صرف 86 ہی ہے اس لیے ہم اتنے ہی طلبہ کو داخلہ دے پاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے جنوبی کیمپس میں بھی داخلے کے خواہش مند طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔

'جو طلبہ داخلہ پانے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں وہ بعد ازاں ہماری یونیورسٹی یا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے فاصلاتی طرز تعلیم کے تحت اردو کے پوسٹ گریجویٹ کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔'

کشمیر یونیورسٹی کے علاوہ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی اور جموں یونیورسٹی بھی 'اردو' میں ریگولر پوسٹ گریجویٹ کورس کراتی ہیں جس میں طلبا غیر معمولی دلچسپی دکھاتے ہیں۔

'اردو' پانچ اگست 2019 کے بعد

پانچ اگست 2019 کو بی جے پی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی اردو زبان بھی 'سرکاری زبان' ہونے کا اعزاز کھو بیٹھی ہے۔

جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019، جس کے تحت کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے 'یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر' اور یونین ٹریٹری آف لداخ' کا نیا نام دیا گیا ہے، کے سیکشن 47 کے مطابق کشمیر میں معرض وجود میں آنے والی نئی اسمبلی ہی 'کسی ایک' یا 'ایک سے زیادہ' یا 'ہندی' کو یہاں کی سرکاری زبان منتخب کرسکتی ہے۔

پانچ اگست 2019 کے بعد شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کے بیچ جہاں حکومت نے 6 ستمبر کو ایک اخباری اشتہار میں کہا کہ خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے کشمیریوں کی منفرد تہذیب، زبان، مذہب اور زمین کے مالکانہ حقوق پر کوئی منفی اثرات نہیں پڑیں گے وہیں چار ماہ بعد یعنی رواں برس جنوری میں دارالحکومت سری نگر میں پہلی بار ہندی زبان میں بڑی ہورڈنگز نمودار ہوئیں۔

'ملک کی ترقی' کے متعلق ہندی زبان میں بڑی سائز کی یہ ہورڈنگز، جو اس وقت بھی سری نگر کے مختلف علاقوں میں نصب ہیں، پر لگی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کو تو راہگیر پہچانتے ہیں لیکن ان پر ہندی زبان میں تحریر عبارت سے قطعی طور پر بے خبر اور ناواقف ہیں۔

'اردو زبان کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمہ داری'

کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اردو کا تحفظ سبھی کشمیریوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

'کل کو اگر یہ لوگ (بی جے پی والے) کوئی اردو مخالف قدم اٹھاتے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جہاں تک ہماری جماعت کا تعلق ہے جو بھی قدم یہاں کی شناخت کے خلاف اٹھایا جائے گا ہم اس کی مخالفت کریں گے اور اس کے خلاف قانونی جنگ لڑیں گے۔'

حسنین مسعودی نے عرضی گزار کے استدلال کو مسترد کرتے ہوئے کہا: 'غلط بول رہے ہیں کہ جموں میں کوئی اردو نہیں جانتا۔ آپ جموں کے (ہندو اکثریتی) آر ایس پورہ اور بلاور جائیں۔ آپ کو بڑی تعداد میں اردو پڑھنے اور لکھنے والے ملیں گے۔

'آپ دیکھیں کہ اردو روزنامہ ہند سماچار زیادہ کہاں پڑھا جاتا ہے۔ جموں میں اردو پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ وادی چناب اور پیر پنچال میں اکثریت اردو پڑھنے لکھنے والوں کی ہی ہے۔'

حسنین مسعودی کے مطابق بھارت میں اردو کو ایک مخصوص مذہب کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے لیکن یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ یہ اردو ہی تھی جو بھارت کی جنگ آزادی میں پیش پیش رہی ہے۔ 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔' ہو یا 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔۔۔۔۔۔۔' ان نظموں کو کیوں بھول رہے ہیں؟'

نیشنل کانفرنس رہنما کا مزید کہنا تھا 'پانچ اگست 2019 کے بعد سے یہاں کے لوگوں کی آزادی اور حقوق سلب کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ کوئی بھی زبان شناخت اور ثقافت کا ایک حصہ ہوتی ہے لیکن کشمیر میں زبان، شناخت اور ثقافت تینوں پر حملے جاری ہیں۔'

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے کشمیری رہنما اور سابق رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'میرے خیال میں کشمیر میں ہندی مسلط کرنا اسی ایجنڈے کا تسلسل ہے جس کے تحت انہوں نے یکطرفہ طور پر ہماری خصوصی آئینی حیثیت ختم کی ہے۔'

'اردو کے خاتمے سے انہیں حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ ناراضگی اور غصہ بڑھے گا، احساس محرومی میں اضافہ ہوگا جو کشمیر اور بھارت میں سے کسی ایک کے لیے بھی ٹھیک نہیں ہے۔'

تاریگامی نے بتایا کہ کشمیری ہندی زبان کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہاں اردو زبان کا ایک الگ مقام رہا ہے اور اس کو ختم کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔

'بھارتی وزیر داخلہ (امت شاہ) نے کچھ ماہ پہلے بیان بھی دیا تھا کہ ایک دیش، ایک زبان اور ایک آئین۔ اس کے خلاف تمل ناڈو میں لوگوں نے احتجاج کیا جس کے بعد ان کو اپنا بیان واپس لینا پڑا۔ لیکن ان کی نیت بدلی نہیں ہے۔

'مجھے اس میں کوئی غلط فہمی نہیں کہ وہ یہاں جموں و کشمیر میں اردو کو کمزور ہی نہیں بلکہ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر کے لیے یہ ایک بڑا نقصان ہوگا۔

'اردو بہت پہلے سے ہماری سرکاری زبان رہی ہے۔ یہ ہماری تہذیبی شناخت ہے۔ یہ ڈوگرہ راج میں بھی ہماری زبان رہی ہے۔ حتی کہ مجھے گلہ ہے کہ سرکاری زبان ہوتے ہوئے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔

'میں نے اسمبلی میں کچھ سال پہلے مطالبہ کیا تھا کہ اردو کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس کے بعد ہاؤس کمیٹی بنائی گئی جس نے کچھ سفارشات پیش کیں جن میں اردو کو سرکاری خط و کتابت کے لیے استعمال کرنے کی سفارش بھی شامل تھی۔ لیکن اکثر سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔'

'اس زبان کو کسی مذہب کے ساتھ منسوب کرنا بھی نا انصافی ہے۔ یہ مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ منشی پریم چند کو کون نہیں جانتا۔ یہ ہماری ملی جلی تہذیب کی علامت ہے۔'

'کشمیر میں اردو کے زوال کے لیے ہم خود ذمہ دار'

ڈاکٹر اعجاز اشرف بھارت کے جنوبی شہر حیدرآباد دکن میں قائم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سری نگر میں تعینات علاقائی ناظم ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر میں اردو زبان کے زوال کے لیے کوئی 'بیرونی طاقتیں' نہیں بلکہ کشمیری عوام اور اس خطے پر زائد از 70 برس تک حکومت کرنے والے مسلم رہنما ذمہ دار ہیں۔

'کشمیر میں آج تک کسی بھی مقامی حکومت نے اردو زبان کے فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ یہ حکومتیں یہاں اردو کے فروغ  کے لیے ایک اکیڈیمی بھی قائم نہیں کرسکیں۔ بہار، تلنگانہ، اترپردیش اور دلی جیسی ریاستوں میں اردو اکیڈیمیاں قائم ہیں لیکن یہاں کسی نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔

'آپ اپنے گھر کا دروازہ کھلا رکھیں گے۔ چور آئیں گے اور سب کچھ اڑا کر لے جائیں گے۔ کون ذمہ دار ہے؟ خود آپ یا چور؟ آپ ذمہ دار ہیں کیونکہ آپ نے دروازہ کھلا رکھا تھا۔ اگر آپ نے اردو زبان کی خود حفاظت کی ہوتی تو آج کوئی چور اسے چرانے کی جرات نہیں کرتا۔ ہم نے تو خود ہی اردو زبان کو لوٹ لیا ہے۔

'بھارت میں کشمیر واحد ایسی جگہ تھی جہاں اردو کو سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ لیکن آپ اپنا شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس اٹھا کر دیکھیں۔ کیا ان پر آپ کا نام اردو میں لکھا ہے؟ پھر یہ کہنا درست ہے کہ یہ سرکاری زبان برائے نام تھی۔'

ڈاکٹر اعجاز کے مطابق کشمیر میں اردو کا حال فارسی جیسا ہوگا۔ 'جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں رنگ اور تہذیب بدلنے میں وقت نہیں لگتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ بیس سال کے بعد ہمارے یہاں اردو کا حال فارسی جیسا ہوگا۔ فارسی ایک وقت میں ہماری سرکاری زبان تھی لیکن آج کہیں نظر نہیں آتی۔

'یہاں ہر ایک مضمون اردو میں پڑھایا جاتا تھا۔ وہ ختم کرنے والے ہم ہیں بی جے پی والے نہیں۔ یہاں ستر سال تک بی جے پی نے نہیں بلکہ یہاں کے مقامی لوگوں نے حکومت کی۔ وہ بتائیں کہ انہوں نے اس زبان کے فروغ کے لیے کیا کیا ہے؟ یہاں اردو زبان کے زوال کے لیے ہم خود ذمہ دار ہیں۔'

ڈاکٹر اعجاز نے بتایا کہ کشمیر کے برعکس اگر ہم جنوبی بھارت کی ریاستوں جیسے تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک اور کیرلا کی طرف دیکھیں گے تو وہاں کے لوگوں نے اپنی زبانوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا اور ہندی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔

'یہاں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے اردو زبان کو صرف شعر و شاعری تک ہی محدود کیا ہے۔ اب یہ اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے ایک دھکا کافی ہے۔'

 'کشمیر میں اردو صحافت کا مستقبل مخدوش'

سینیئر کشمیری صحافی اور اردو روزنامہ 'عقاب' کے مدیر اعلیٰ منظور انجم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بے شک کشمیر میں اس وقت بھی 70 فیصد لوگ اردو اخبارات ہی پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں اردو صحافت کا مستقبل مخدوش ہے۔

ان کے بقول: 'کشمیر میں تقریباً 70 فیصدی لوگ اردو اخبارات ہی پڑھتے ہیں۔ انگریزی اخبارات کی بات کریں تو ان کا پڑھنے والا طبقہ اشرافیہ اور بیوروکریسی کے لوگوں کا ہے۔ عام لوگ اردو اخبارات ہی پڑھتے ہیں، لیکن اردو اخبارات کے تئیں سرکاری سرپرستی ختم ہوتی جا رہی ہے۔

'زیادہ سہولیات اور اشتہار انگریزی اخبارات کو ہی دیے جاتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی چلانے والے انگریزی اخبارات ہی پڑھتے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہاں اردو صحافت کا مستقبل مخدوش ہی نظر آتا ہے۔'

منظور انجم کے مطابق کشمیر میں اردو اخبارات لوگوں اور سرکار کے درمیان پل کا کام کرتے تھے، لیکن اب وہ بات نہیں رہی ہے۔

'لوگوں کی مشکلات کو آج بھی زیادہ سپیس اردو اخبارات میں ہی ملتی ہے لیکن چونکہ بیوروکریسی کے لوگ انگریزی پڑھنے والے ہیں اس لیے ان کا ازالہ نہیں ہوتا۔ یہاں اب اردو اخبارات کی اہمیت بالکل ختم ہوچکی ہے کیونکہ سرکار اردو کو پوری طرح سے نظرانداز کر رہی ہے۔'

منظور انجم نے بتایا کہ کشمیر میں ڈوگرہ راج نے اردو کو سرکاری زبان منتخب کیا تھا اور اردو کا پہلا اخبار 'رنبیر' اسی دور میں جموں سے جاری ہوا تھا۔

'ڈوگرہ راج نے بھی اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ جموں میں ڈوگری، کشمیر میں کشمیری اور لداخ میں لداخی بولی جاتی تھی لیکن اردو ان تینوں کے درمیان رابطے کی زبان تھی۔'

 کشمیر میں اردو بحیثیت سرکاری زبان

محقق و مصنف ڈاکٹر اشرف لون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر میں 1889 میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ پرتاب سنگھ کے عہد میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ ملا تھا۔

'کشمیر میں آج تک اردو کو جو بھی مقام حاصل ہوا ہے اس میں غیر مسلم حکمرانوں کا اہم کردار رہا ہے اور یہ اردو کے ایک بڑی زبان ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور اس بات کا رد بھی کہ "اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے"

'ڈوگرہ حکمرانوں ہی نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اور اس کے فروغ کے لیے کوششیں کیں۔ اردو کا پہلا چھاپہ خانہ 1858 میں جموں میں قائم ہوا۔ ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت میں کشمیر کا پہلا دارلترجمہ بھی قائم کیا تھا جہاں سے اردو کے کئی مسودے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی جہاں اردو کی کتابیں اور کئی نادر مسودے جمع کیے گئے۔'

ڈاکٹر اشرف لون کے مطابق 1924 میں ملک راج صراف نے کشمیر کا پہلا اخبار جموں سے جاری کیا۔ اس اخبار میں مسلمان اور پنڈت برادری کے ادیبوں و شعرا کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔

'وہیں سری نگر کا پہلا اخبار "وتستا" پریم ناتھ بزاز نے 1933 میں جاری کیا۔ اس کے بعد 1934 میں شیخ محمد عبداللہ اور بزاز نے پہلا ہفت روزہ "ہمدرد" شائع کیا۔ اسی سال کشمیری پنڈتوں کی انجمن نے ہفت روزہ "مارٹنڈ" کا اجرا کیا۔ اس طرح 1947 تک کشمیر میں اردو اخبارات کی تعداد 47 تک پہنچ گئی تھی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر اشرف لون کہتے ہیں کہ بیسیوں صدی کی دوسری دہائی سے کشمیر کی عدالتوں میں فارسی کی بجائے اردو میں کام ہونے لگا۔ تقریباً اسی زمانے میں محمکہ مال میں اردو کا استعمال ہونے لگا۔

'1940 میں سیدین کمیٹی کی سفارشات کی منظوری سے کشمیر کے سکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم بن گئی۔ 1954 میں جموں وکشمیر آئین ساز اسمبلی نے بھی دفعہ 145 کے تحت اردو کو کشمیر کی سرکاری زبان قرار دیا۔

'میں نے خود پانچویں تک سائنس اور دسویں تک تاریخ کا مضمون اردو زبان میں پڑھا ہے۔ چونکہ اردو مادری زبان کشمیری کے بعد یہاں کی سب سے زیادہ مقبول زبان رہی ہے اس لیے اس کے ساتھ ابھی تک کسی نے چھیڑ چھاڑ کی تھی نہ ہی کسی نے سرکاری زبان کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔'

اردو کو ہٹانے کی تیاریوں کے متعلق پوچھے جانے پر ڈاکٹر اشرف لون کا کہنا تھا: 'کشمیر سے اردو کو بحیثیت سرکاری زبان ہٹانا نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ یہ دراصل زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ آر ایس ایس کے زیر اثر ہندوتوا پروجیکٹ کا ایک حصہ ہے، جن کو مسلمانوں کی ترقی اور ان سے وابستہ چیزوں کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا