پشاور پریس کلب کی بیٹ پر کام کرتے ہوئے روز ہمیں بہت سے مظاہروں کی کوریج کرنی پڑتی۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا جب پریس کلب کے سامنے مظاہرہ نہ ہوتا اور یہ سارے مظاہرے حکومت مخالف ہی ہوتے۔
آٹا مہنگا، گیس مہنگی، بجلی مہنگی اور اشیائے ضرورت کے مہنگے ہونے کے خلاف کوئی نہ کوئی احتجاج کی راہ اپناتا۔ ایک وقت میں تو مظاہرے اتنے زیادہ ہو گئے تھے کہ اخبارات کے نیوز ایڈیٹروں نے مظاہروں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کرلی تھی جہاں ہر قسم کے مظاہروں کی خبریں لگائی جاتیں۔
کبھی کبھار ایک نوعیت کے مظاہروں کو ایک ہی خبر میں سمو دیا جاتا جس پر مظاہرہ کرنے والے بھی گلہ کرتے اور ناراض ہو جایا کرتے تھے کہ ہمیں الگ سے کوریج کیوں نہیں دی۔
ان مظاہرین کی بھی الگ ہی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ایک بندے کا مسئلہ ہوتا ہے درجنوں کو چکر کا اور کھانے پینے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کر لیا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں بینرز تھما دیے جاتے ہیں کہ بس اوپر نیچے کرتے رہنا کہ یہ نمایاں آ جائیں۔
ہمارے بہت سے دوستوں کو پہلے سے معلوم ہوتا کہ کل کو مظاہرہ ہو گا اور اس لیے انہوں نے پہلے سے خبر تیار کی ہوتی۔ صرف جگہ اور قیادت کرنے والے کی جگہ خالی رہتی وہ جب مظاہرہ ہو جاتا تو لکھ دیا جاتا۔ سول سوسائٹی کے جتنے بھی مظاہرے ہوتے اُن کے قائدین ہر روز بدلا کرتے تھے، یعنیٰ ہر بندے کو قیادت سونپی جاتی۔
ہمارے کچھ فوٹوگرافر دوستوں کے ساتھ ان مظاہرین کی بہت اچھی علیک سلیک ہوا کرتی وہ جب بہت زیادہ خبر پر زور دیا کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
اب تک جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں ہر ایک حکومت میں اپوزیشن اور عوام نے احتجاج کی راہیں اپنائی ہیں۔ ان گناہ گار کانوں نے ’گو مشرف گو،‘ ’گو زرردای گو،‘ ’گو نواز گو‘ اور اب ’گو عمران گو‘ کے نعرے سنے ہیں۔ صوبائی حکومت میں ایم ایم اے، مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت تحریک انصاف کے خلاف مظاہرے بھی دیکھے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سسٹم کے خلاف مظاہرے دیکھے ہیں، مگر کبھی یہ سارا سسٹم چلانے والوں کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں دیکھا، کیونکہ سسٹم چلانے والے صحافیوں سے زیادہ مظاہرین کی کوریج کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر مظاہروں کی رپورٹ بھجواتے ہیں۔ مگر ابھی تک ان احتجاجی مظاہروں کا کوئی دوررس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
عوام مظاہرے پہلے بھی کرتے آئے ہیں اب بھی کرتے ہیں اور مستقبل میں اگر کسی کی بھی حکومت آئے ان عوام نے سڑکوں پر آنا ہے کیونکہ ان کا مسئلہ حکومت نے حل ہی نہیں کرنا، ورنہ ہونے کو کیا کچھ نہیں ہوتا۔
آج کرسی پر عمران خان براجمان ہیں اور عوام ایشوز پر احتجاج کر رہے ہیں، کل کوئی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو گا تو بھی احتجاج جاری رہے گا کیونکہ ہر حکومت میں ہم عوام کو بجلی کا بل بھی اسی طرح زیادہ ادا کرنا ہے۔ پٹرول بھی مہنگا خریدنا ہے اشیائے خورد و نوش پر اضافی ٹیکس بھی ادا کرتے رہنا ہے۔ ملاوٹ والا دودھ بھی استعمال کرنا مجبوریوں میں شامل ہو گا، تعلیم یافتہ افراد نے نوکریوں کے لیے یونہی دھکے کھاتے رہنا ہے۔ ملازمین نے کم تنخواہوں پر اپنا استحصال برداشت کرتے رہنا ہے۔
کسی کے بھی وزیراعظم بننے سے یا کسی بھی پارٹی کے برسراقتدار آنے سے کون سا ہمارے نام ایک ایک پلاٹ الاٹ ہو جانا ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلنا۔ یہ روز و شب، یہ مشکلات ایسے ہی رہنے ہیں۔ ایک جاتا ہے، دوسرا آتا ہے۔ یوں کہانی نے چلتے رہنا ہے۔ ملک نے تباہ ہوتے رہنا ہے اور ہم عوام نے اپنا فرض احتجاج کا ادا کرتے رہنا ہے۔