میرے اغوا کا توہین عدالت کیس سے براہ راست تعلق ہے: مطیع اللہ جان

صحافی مطیع اللہ جان نے سپریم کورٹ سے توہین عدالت کیس میں تحریری جواب جمع کروانے کے لیے مہلت طلب کرلی۔

 گذشتہ روز مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس سے نامعلوم افراد نے اس وقت ’اغوا‘ کر لیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کو ان کے سکول چھوڑنے آئے تھے، انہیں رات گئے فتح جھنگ کے علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران صحافی مطیع اللہ جان نے اپنے 'اغوا' کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے تحریری جواب جمع کروانے کے لیے مہلت طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بینچ نے صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں مطیع اللہ کی ایک متنازع ٹویٹ کا عدالت نے ازخود نوٹس کر انہیں نوٹس جاری کیا تھا۔

قیاس کیا جا رہا ہے کہ جس ٹویٹ پر عدالت نے نوٹس لیا، اس میں مطیع اللہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حوالے سے بینچ میں موجود ججز پر تنقید کی تھی۔

سماعت کے آغاز سے 45 منٹ پہلے مطیع اللہ جان عدالت کے احاطے میں پہنچے تو وہاں پر موجود صحافیوں نے تالیاں بجا کر ان کا استقبال کیا۔ مطیع اللہ جان کے ساتھ ان کے بیٹے اور بیٹی بھی موجود تھیں جب کہ پریس کلب کے انتخابات میں مطیع اللہ جان کے حریف صحافی بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ مطیع اللہ جان کے ساتھ صحافیوں کی یکجہتی کا یہ عالم تھا کہ کرونا وبا کے باعث نافذ قواعد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صحافی مطیع اللہ جان سے گلے ملتے نظر آئے۔

عدالت میں داخلے کے وقت مطیع اللہ جان سے صحافیوں نے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سماعت کے بعد سب بتاؤں گا۔‘

مطیع اللہ جان کی آمد سے پہلے وہاں پر موجود صحافی اغوا کے واقعے پر چہ مہ گوئیاں کرتے رہے۔

توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت دوپہر ایک بجے کے لیے مختص اور کمرہ عدالت نمبر ایک میں مطیع اللہ جان عام طور پر میڈیا کے لیے مختص جگہ پر بیٹھتے ہیں مگر آج وہ گیلری کی پہلی صف میں بیٹھے نظر آئے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی خبروں پر کل شور مچا رہا، کیا مطیع اللہ جان کو واقعی اغوا کیا گیا تھا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان کے بھائی نے ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’مطیع اللہ جان کے اغوا کا توہین عدالت کیس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘

مطیع اللہ جان جو کہ روسٹرم پر موجود تھے انہوں نے جواب دینے کی کوشش کی اور ’مائی لارڈُ کہا ہی تھا کہ چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ ’آپ صرف توہین عدالت والے معاملے پر ہی بات کریں۔‘

توہین عدالت کے کیس کے حوالے سے عدالت نے مطیع اللہ جان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنا جواب جمع کروایا ہے تو مطیع اللہ جان نے کہا کہ وہ اغوا کے باعث جواب تیار نہیں کر سکے جس کے لیے انہیں مہلت چاہیے۔

مطیع اللہ جان نے بعد ازاں عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ بھی کہا کہ 'میرا اغوا توہین عدالت کے مقدمہ سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ 'اس کا کیا مطلب ہے؟' ساتھ ہی عدالت نے مطیع اللہ کو وقت دیتے ہوئے کہا کہ 'آپ جب جواب داخل کریں تو اس حوالے سے بھی بتائیں۔'

مطیع اللہ جان نے عدالت کے روبرو کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا فری اینڈ فیئر ٹرائل ہو، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ہم یہاں اسی لیے بیٹھے ہیں۔'

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ہدایات جاری کیں کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس دو ہفتے بعد عدالت عظمیٰ کو سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے 'مبینہ اغوا' کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں۔

دوران سماعت عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ابھی تک مطیع اللہ کے بھائی کا بیان کیوں ریکارڈ نہیں کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل کوئی جواب نہیں دے سکے۔ اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'آپ کا ڈیپارٹمنٹ کیا کر رہا ہے؟ ان کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیے تھا۔'

واضح رہے کہ گذشتہ روز مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس سے نامعلوم افراد نے اس وقت ’اغوا‘ کر لیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کو ان کے سکول چھوڑنے آئے تھے، انہیں رات گئے فتح جھنگ کے علاقے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

کیس کا آرڈر لکھواتے وقت چیف جسٹس گلزار احمد  نے مطیع اللہ جان کے لیے توہین عدالت کے ملزم (alleged contemnor) کا لفظ استعمال کیا، جس  پر جسٹس مشیر عالم نے ان کے کان میں کچھ کہا، جس کے بعد چیف جسٹس  نے ان کے لیے 'مغوی' کا لفظ استعمال کیا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے چیف جسٹس  کے کان میں سرگوشی کے بعد انہوں نے مطیع اللہ کے لیے 'مبینہ مغوی' کا لفظ استعمال کیا۔

اس دوران مطیع اللہ نے کہا کہ 'میرا اغو امبینہ نہیں ہے۔' جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیا، 'یہ قانونی اصطلاح ہے۔'

سماعت کے دوران وکلا کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 'گذشتہ روز قانون کی دھجیاں بکھری گئیں۔'

دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر افضل بٹ نے کہا کہ 'ہم استدعا کرتے ہیں کہ معاملے کو رفع دفع نہیں ہونا چاہیے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان