گوگل: عالمی گاؤں کا متعصب نمبردار

معروف عالمی سرچ انجن کا سائبر سپیس سے فلسطینی نقشہ نہ دکھانے کا اقدام فلسطینیوں کی زمین چوری کے لیے مشتہر ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس فلسطین کا تاریخی نقشہ دکھا رہے ہیں (اے ایف پی)

انفارمیشن سپر ہائے وے سے گوہر مقصود کی تلاش میں سہولت کار کا قابل تعریف کردار ادا کرنے والے معروف عالمی سرچ انجن گوگل اور ایپل آئی این سی نے نقشوں کے اپنے ڈیٹا بیس سے فلسطین کا نام مٹا رکھا ہے، جس پر دنیا بھر میں احتجاج اور مذمت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر #PalestineHere اور #FreePalestine جیسے مقبول ترین ٹرینڈز اسی غم وغصے کا اظہار ہیں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

 

مشرق وسطیٰ کی سرزمین پر قائم تاریخی خطہ فلسطین سے تین سماوی ادیان بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کی قدیم تاریخ منسوب ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک سازش کے تحت فلسطین کی سرزمین پر یہودی آباد کاری کا آغاز ہوا، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ممالک کی سرپرستی میں مسلم اکثریتی سرزمین پر اسرائیل قائم کر دیا گیا، جسے فلسطینی عوام اور نہ ہی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے قبول کیا۔

آپ گوگل سرچ انجن کا استعمال کرتے ہوئے فلسطین کے نام سے نقشہ تلاش کریں تو وہاں اس نام سے کوئی نقشہ نہیں ملے گا۔ جو فلسطینی علاقے مسلمانوں کے زیر کنڑول تھے آج ان مقامات کو بھی گوگل کی جانب سے اسرائیلی علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔

امریکہ میں مرکزی دفتر رکھنے والے گوگل اور اپیل کا مذکورہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدی کی بدترین سودے بازی یعنی ’ڈیل آف دی سنچری‘ کا بظاہر حصہ لگتا ہے۔ اس میں نہ جانے کیوں فلسطینیوں کی زمین چوری کے لیے تیارکردہ اسرائیل۔امریکہ سازش کی بو آتی ہے؟

آج سے چار سال قبل [2016] گوگل انتظامیہ نے فلسطین کا نقشہ نہ دینے کے اپنے فیصلے کی وضاحت یہ دی تھی کہ وہ دنیا کے متنازعہ علاقوں کو نام نہیں دیتے۔ اگر حقیقت پر مبنی بات کی جائے تو گوگل انتظامیہ نے کبھی بھی فلسطین کو دنیا کے نقشے پر رکھا ہی نہیں، البتہ گوگل کی اس پالیسی پر عوام کی جانب سے ایک بار پھر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے رکن 136 ملکوں کی جانب سے جہاں فلسطین کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے وہیں اسرائیلی بربریت کی بھی مذمت کی جاتی ہے لیکن دوسری جانب حالات بالکل برعکس ہی ہیں۔ عالمی قوت امریکہ اور کئی طاقتور ممالک کی جانب سے اسرائیل کو حمایت حاصل ہے۔ یہ ممالک اسرائیل کے گھناؤنے جرائم کی پشت پناہی کرتے ہیں اور فلسطین کی آزاد حیثیت کو بھی نہیں تسلیم نہیں کرتے۔

پانچویں صدی سے دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان پائے جانے والے علاقوں کے لیے فلسطین کا نام مستقل طور پر استعمال ہوتا رہا جسے تاہم گوگل نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کر کے ایک مذموم کوشش کی ہے۔ اس کی جگہ اسرائیل کا نقشہ موجود ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1918 میں فلسطین دنیا کے نقشہ پر موجود تھا، اس وقت دنیا اسرائیل کا نام تک نہیں جانتی تھی۔

اس صورت حال میں یہ کہنا بےجا نہیں کہ سائبر سپیس میں نت نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد اور اس فروغ کے ذریعے دنیا کو عالمی گاؤں بنانے والی سرکردہ کمپنیوں کے حالیہ متعصب اقدامات ان اداروں کی اپنی ہی وضع کردہ پالیسوں کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے کافی ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو رابطوں کی لڑی میں پرونے والے پلیٹ فارم فیس بک اور ٹوئٹر بھی فلسطین اور کشمیر دشمنی میں اپنے معاصر گوگل اور اپیل سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ صارفین کو بلاتفریق معلومات اور یقینی رابطے کے وعدے پر ’کاروبار‘چمکانے والی فیس بک نے حالیہ چند دنوں میں اپنے ایلگروتھم میں ایسے فلٹرز لگائے ہیں جن کا خصوصی ہدف وہ صارف ہیں، جو فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی تسلط کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس آزاد سوچ کا پرچار کرنے والی سینکڑوں نیوز ویب سائٹس کے سوشل میڈیا صحافت کو ’فحاشی کی ترویج‘ کا الزام عائد کر کے بند کیا جا چکا ہے حالانکہ انہیں لاکھوں افراد ’لائیک‘ کرتے تھے۔ کشمیر اور فلسطین میں آزادی کی تحریکوں کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والوں ہیروز کی تصاویر پر مبنی ’ڈسپلے پکچرز‘ والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے جا رہے ہیں۔

ذوق سلیم سے عاری فحش مواد کی عمومی تشہیر کا ذریعہ بننے والے ان پلیٹ فارمز کو شاید آزادی فلسطین اور کشمیر کاز کے پرچار کے لیے اپنا کاندھا پیش کرتے ہوئے حیا آتی ہے! اسی لیے انہیں دھڑا دھڑ بند کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر فلسطین اور کشمیر جیسے دو حل طلب امور سے متعلق گوگل اور اس کی معاصر کمپنیوں کا امتیازی رویہ قابل مذمت ہے۔

اگر گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر سے وابستہ اسرائیلی اور بھارتی فنی ماہرین سیاسی اور مذہبی تعصب کی بنا پر ’شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری‘ کا عنوان بن کر اکاؤنٹس بندش جیسی شرمناک خدمت انجام دے رہے ہیں تو انہیں اپنے ہاں ملازم رکھنے والے ان کاروباری اداروں کو ایسے افراد کا کڑا احتساب کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

یہ امتیازی اقدامات اگر سائبر سپیس اور عالمی گاؤں کے ان نمبرداروں کی طے شدہ پالیسی کا پرتو ہیں تو پھر ان سے استفادہ کرنے والے باضمیر آزادی پسند عوام بین الاقوامی رابطے کے لیے معیاری اور تیز رفتار متبادل ذرائع تلاش کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔

مسلم دنیا کے صاحب وسائل ملکوں اور شخصیات کو سوشل رابطوں کے معیاری متبادل پلیٹ فارمز تیاری کے لیے حکمت عملی اور وسائل دل کھول کر فراہم کرنے چاہیں تاکہ عالمی گاؤں کا دلفریب نعرہ حقیقت کا روپ دھار سکے جہاں کے ارباب حل وعقد عقیدے، مذہب، رنگ اور نسل کی بنا پر کسی کو ’نکو‘ نہ بنا سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ