عید کے بعد افغان سیاسی قیادت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں: طالبان

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی قیدیوں کے آخری گرو کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرط یہ کہ ان کے قیدیوں کے آخری گروپ کو بھی رہا کیا جائے۔

جولائی 2019 میں افغان طالبان کا ایک وفد دوحہ میں  انٹرا افغان مذاکرات کے لیے آتے ہوئے (اے ایف پی)

افغان طالبان نے کہا ہے کہ وہ جولائی کے آخر میں عیدالاضحیٰ کے بعد افغان سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ طالبان نے حکومتی قیدیوں کے آخری گروپ کو ایک ہفتے میں رہا کرنے کی پیش کش بھی کی ہے تاہم اس کے لیے انہوں نے حکومت کی قید میں اپنے آخری گروپ کی رہائی کی شرط رکھی ہے۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ پیش کش طالبان کے سیاسی ترجمان نے سہیل شاہین نےجمعرات کی شام اپنی ایک ٹویٹ میں کی ہے۔

یہ پیش کش کئی برس میں طالبان میں اہم تبدیلیوں کے بعد کی گئی ہے۔ طالبان نے دہشت کی علامت سمجھے جانے والے تحریک کے بانی کے بیٹے کو تنظیم کے عسکری ونگ کا سربراہ مقررکیا ہے جبکہ طالبان رہنماؤں کی طاقتور کونسل کے ارکان کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔

جمعے کو کابل میں قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل نے کہا تھا کہ طالبان نے قیدیوں کی جو فہرست دی ہے اس پر ابھی تک کام جاری ہے۔ یہ کونسل طالبان کے ساتھ امن کی کوششوں کے لیے مئی میں قائم کی گئی تھی۔

قومی سلامتی کے افغان مشیر کے دفتر کے ترجمان فیصل جاوید نے اس سے پہلے کہا تھا کہ تقریباً چھ سو طالبان قیدی جن کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے انہیں سنگین جرائم میں سزا دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان قیدیوں کو چھوڑنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

بظاہر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حکومت باقی رہ جانے والے طالبان قیدیوں کو عید سے پہلے رہا کر دے گی۔

پانچ ہزار طالبان قیدیوں اور ایک ہزار سرکاری اہلکاروں اور سیکیورٹی حکام کی رہائی امریکہ طالبان امن معاہدے میں طے پائی تھی۔ معاہدے کا مقصد افغانستان میں مسلسل ہونے والی لڑائی بند کروانا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاہدے کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز سے پہلے قیدیوں کا تبادلہ ہونا ہے جو شاید معاہدے کا اہم ترین حصہ ہے۔

شاہین کی ٹویٹ مذاکرات کی ٹائم لائن پر پہلی پیش کش ہے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل پہلے مکمل کیا جائے۔

انہوں نے طالبان کی طرف سے دی گئی قیدیوں کی فہرست کے علاوہ دوسرے طالبان کی رہائی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

کابل نے اپنی تحویل میں موجود متبادل قیدیوں کو رہا کرنے کی پیش کش کی تھی۔ ان میں وہ قیدی شامل ہیں جو سنگین جرائم  میں ملوث نہیں ہیں۔

سرکاری قومی مفاہمتی کونسل کے ارکان کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ کونسل عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے جو گذشتہ برس صدارتی انتخاب میں امیدوار تھے۔ انہوں نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے اپنے صدر ہونے کا اعلان کردیا تھا جس پر سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے انہیں مفاہمتی کوششوں کی سربراہی دے دی گئی تھی۔

دریں اثنا قطر کے دارالحکومت دوحہ، جہاں طالبان کا سیاسی دفتر قائم  ہے، میں طالبان نے 20 رکنی مذاکراتی ٹیم کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس ٹیم میں طالبان کی قیادت کونسل کے 13 ارکان شامل ہیں۔

طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنظیم کی طرف سے فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا