ٹرمپ کو ’فراڈ‘ کا خدشہ، انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دے دی

ٹوئٹر پر انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹس میں جعلی نتائج کا خدشہ ہے۔

صدر ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران آئندہ انتخابات کے لیے میل ان بیلٹ سسٹم ان کے خلاف نتائج کا باعث بنے گا۔(اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ عوام ’محفوظ طریقے سے‘ ووٹ ڈال سکیں۔

ٹرمپ اپنے اس اصرار پر بھی قائم رہے کہ میل۔ان بیلٹ (ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹس) سے جعلی نتائج برآمد ہوں گے۔

امریکی صدر نے یہ تجویز جمعرات کوایک ٹویٹ میں دی۔ انہوں نے لکھا: ’یونیورسل میل۔ان ووٹنگ کے ساتھ 2020 کے انتخابات تاریخ کے سب سے زیادہ غیر یقینی اور فراڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ امریکہ کے لیے ایک بہت بڑی شرمندگی ہوگی۔ انتخابات کو اس وقت تک موخر کریں جب تک کہ لوگ مناسب اور محفوظ طریقے سے ووٹ ڈالنے کے قابل نہ ہو جائیں۔‘

امریکی قوانین کے مطابق صدر کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ صرف کانگریس ہی وفاقی انتخابات کی تاریخیں طے کرنے کی مجاز ہیں۔ آئین میں 21 جنوری کے لیے مقرر کردہ صدارتی حلف برداری کی تقریب میں تاخیر کے لیے بھی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایف ای سی کے کمشنر ایلن وینٹراب نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس الیکشن کو ملتوی کرنے کا اختیار نہیں ہے اور ’نہ ہی اس کو ملتوی ہونا چاہیے۔‘

امریکی ایوان کی ایڈمنسٹریشن چیئر ویمن زو لوفگرین کا کہنا تھا: ’صرف کانگریس ہی وفاقی انتخابات کی تاریخ کو تبدیل کرسکتی ہے اور ہم کسی بھی صورت میں صدر کی نااہلی اور کرونا کی وبا کے تناظر میں ایسا کرنے پر غور نہیں کریں گے۔‘

ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز نے صدر ٹرمپ کی انتخابات میں تاخیر کے لیے دباؤ ڈالنے کی خبروں پر یکساں ردعمل کا اظہار کیا، جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔

ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے صدر کی ٹویٹ کے بعد ٹوئٹر پر آئین کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنا کانگریس کا اختیار ہے۔

ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ نہیں سوچتے کہ انتخابات کو ملتوی کرنا ’خاص طور پر کوئی اچھا خیال ہے۔‘

صدر کے اتحادی سمجھے جانے والے میجارٹی لیڈر مچ میک کونل نے ابتدائی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ بعد میں انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’ملک کی تاریخ میں جنگوں، سانحات اور خانہ جنگی کے دوران شیڈول پر وفاقی انتخابات نہیں ہوئے اور ہمیں تین نومبر کو پھر سے ایسا کرنے کا کوئی راستہ مل جائے گا۔‘

صدر ٹرمپ کےایک اور اتحادی اور ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے آئندہ انتخابات میں فراڈ کے دعوؤں کو مسترد کردیا۔ روبیو نے کیپیٹل ہل پر صحافیوں کو بتایا: ’ہم انتخابات میں جا رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ کی طرح قانونی اور قابل اعتبار انتخابات ہوں گے۔‘

صدر ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران آئندہ انتخابات کے لیے میل ان بیلٹ سسٹم ان کے خلاف نتائج کا باعث بنے گا۔

اگرچہ صدر ٹرمپ اس نظام پر الزامات لگا رہے ہیں تاہم ماضی کے صدارتی انتخابات میں وہ خود اور ان کی انتظامیہ کے  بیشتر ارکان بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میل۔ان بیلٹ کا استعمال بیرون ملک مقیم سروس ممبرز کو بھی ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرتا ہے اور پانچ ریاستیں، کولوراڈو، اوریگون، واشنگٹن، یوٹاہ اور ہوائی، اپنے شہریوں کو ہر انتخابات کے دوران بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کا حق دیتی ہیں۔

ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بالخصوص کرونا وائرس کی وبا کے دوران میل۔ان بیلٹ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ نیو یارک، ایریزونا اور مشی گن جیسی ریاستوں نے بھی اپنے ووٹنگ قواعد میں نرمی کی ہے تاکہ کسی بھی شہری کو انتخابات کے دوران ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جا سکے۔

انتخابی عمل کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹس میں دھاندلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

امریکی قدامت پسند تنظیم ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ نے اوریگون کے میل۔ان بیلٹ سسٹم کا جائزہ لیا اور پتہ چلا کہ 1998 میں ریاست میں ڈالے گئے ایک کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ ووٹس میں ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹس میں فراڈ کے محض 14 واقعات سامنے آئے تھے۔

ان حقائق کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے ان دعوؤں سختی سے قائم ہیں کہ اس نظام سے انتخابات میں  یقینی دھاندلی ہوگی جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ اگر وہ نومبر کے انتخابات ہار گئے تو وہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔

فاکس نیوز کو اتوار کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں میزبان کرس والیس نے صدر ٹرمپ سے خصوصی طور پر پوچھا کہ کیا وہ انتخابی نتائج کو قبول کریں گے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ’مجھے دیکھنا ہو گا۔ دیکھیں۔۔ کیا ہوتا ہے۔ میں صرف 'ہاں' نہیں کہوں گا۔ بلکہ 'نہیں' بھی نہیں کہوں گا اور میں بھی آخری بار بھی ایسا نہیں کیا تھا۔‘

یہی نہیں صدر ٹرمپ نے ان خیالات سے اپنے حامیوں میں بھی غصے کی لہر دوڑا دی ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات جعلی ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ ماہ ایریزونا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میری رائے میں یہ ہمارے ملک کی تاریخ کے سب سے دھاندلی شدہ الیکشن ہوں گے۔‘

منگل کو ہاؤس جوڈیشل کمیٹی کے سامنے تقریر کرتے وقت اٹارنی جنرل ولیم بار سے میل۔ان ووٹنگ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ووٹنگ کے عمل کو ’ہول سیل‘ میں  تبدیل کرنے سے انتخابات میں جعلسازی کا ایک بڑا خطرہ ہوسکتا ہے۔

 لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 2020 کے انتخابات میں دھاندلی کے نتائج سامنے آئیں گے تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسا سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ