کالعدم تنظیموں کا قربانی کی کھالوں پر کتنا انحصار ہے؟

خیبرپختونخوا میں حکام کی جانب سےکالعدم تنظیموں پر کھالیں جمع کرنے کی پابندی کے نوٹیفکیشن کے بعد یہ بحث شروع ہوگئی کہ عوام کو کیسے معلوم ہوگا کہ کھال مانگنے والے لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں۔

ایک قربانی کے  جانور کو موٹر سائیکل پر لے جایا جارہا ہے  (تصویر: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے داخلی اور قبائلی امور کے محکمے کی جانب سے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی عید الاضحیٰ کے موقع پر جاری کیے گئے اعلامیے کے تحت کالعدم تنظیموں پر جانوروں کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ وہ خیراتی تنظیمیں جو کھالیں جمع کرنا چاہتی ہیں۔ وہ حلف نامے کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں درخواست جمع کرا سکتی ہیں، جس پر ڈی سی دفتر پانچ دن کے اندر فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا۔ 

تاہم اس نوٹیفیکیشن کے جاری ہونے کے بعد یہ بحث شروع ہوگئی کہ ایک دور افتادہ یا عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقے کے ایک عام شخص کو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کھال مانگنے والے لوگ کون ہیں اور اس سے عسکریت پسند تنظیم کو کس طرح اور کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ جبکہ کھال عطیہ والے شخص کو جرم ثابت ہونے کے بعد کن قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال کی وضاحت میں ناکام رہا کہ اس اعلامیے کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا تاکہ درپردہ عزائم رکھنے والی تنظیموں کے راستے بند کیے جا سکیں۔ 

دوسری جانب بعض پاکستانی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ دراصل اس نوٹیفیکشن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے ہے کیونکہ 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد ملک پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ 

سیاسی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار پروفیسر وقار حیدر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کو کچھ نظر آیا تو تب ہی انہوں نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے اور تب ہی پاکستان بھی اس حوالے سے سنجیدہ اقدام اٹھا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’ملک میں ایسا نظام ہونا چاہیے جس میں عطیات لینے والا ادارہ کسی حکومتی ادارے کے ساتھ جڑا ہو تاکہ اس سے جواب طلبی کی جا سکے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عوام سے چندے خیرات لے کر اس کو اپنی مرضی کے کاموں  میں استعمال کیا جائے۔‘

وقار حیدری کے مطابق: ’پاکستان کافی عرصے سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دباؤ کا شکار ہے۔ ملک کے خراب مالی حالات اور بڑھتے ہوئے اقتصادی قرضوں کے بوجھ سے متاثرہ پاکستان کے لیے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔‘

ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان نے اب تک 27  سفارشات میں سے 14 پر عمل درآمد کیا ہے جبکہ باقی 13 سفارشات، جو ادارے کے مطابق بہت اہمیت کی حامل ہیں، ان پر پاکستان کو عمل کرنا ہوگا۔

ان 13 سفارشات کی شق نمبر ایک، دو اور 12 میں پاکستان کو خاص طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کی مالی معاونت کی حوصلہ شکنی کرے گا۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے ایف اے ٹی ایف سے وابستہ دو بل انہی سفارشات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں، جن میں انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 اور اقوام متحدہ (سلامتی کونسل ترمیمی) بل 2020 شامل ہیں۔ 

کھالوں کی مالی حیثیت کیا ہے؟

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک قصائی یوسف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں سے جانوروں کی کھالوں کی قیمت میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہزاروں میں بکنے والی کھالیں اب 100 روپے سے لے کر پانچ سو روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ ’ایک تندرست اور توانا جانور کی کھال 500 تک بک جاتی ہے جبکہ گائے اور چھوٹے جانوروں کی کھالیں 100 سے 200 روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔‘

یوسف کے اس انکشاف کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا کالعدم تنظیموں کو کھالیں اکھٹی کرنے سے اتنا مالی فائدہ ہوگا کہ وہ اپنی کاروائیاں جاری رکھ سکیں یا پھر ان کی مالی معاونت کے دیگر ذرائع بھی ہوسکتے ہیں جن کو روکنے کے لیے حکومت کو مستعدی کے ساتھ دیگر اقدامات کرنے پڑِیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان