انگلینڈ کا سولہواں دورہ، سب سے کمزور ٹیم: جیت کیسے سکتے ہیں؟

قومی ٹیم کے موجودہ دورے پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ اب تک دورے کرنے والی ٹیموں میں سب سے کمزور ٹیم ہے اور بیٹنگ کے ساتھ بولنگ میں بھی تجربے کا فقدان ہے۔

کرونا وبا سے پہلےفروری میں کھیلے گئے پاکستانی ٹیم کے آخری ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش کے ابو جاوید بابر اعظم کی وکٹ لینے کے بعد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں (اے ایف پی)

عابد علی یا امام الحق؟ فواد عالم یا شاداب خان؟

یہ وہ دو سوال ہیں جنہوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف کوچ کے دماغ میں تلاطم پیدا کیے ہوئے ہیں۔ 

بدھ سے گریٹر مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور پاکستان کے مابین موجودہ ٹیسٹ سیریز کے پہلے ٹیسٹ کا آغاز ہورہا ہے۔

پاکستانی ٹیم کے انتخاب میں ویسے تو ٹیم کوچ کو کوئی پریشانی نہیں ہے اور گیارہ کھلاڑی تقریباً واضح ہیں لیکن گذشتہ چھ ہفتوں سے مسلسل ٹریننگ اور پریکٹس میچز کھیلنے کے باوجود بلے بازوں نے اب تک مستحکم اعتماد کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

مڈل آرڈر جو کپتان اظہر علی، بابر اعظم اور اسد شفیق کے سہارے کھڑا ہے اس میں دراڑ تو نہیں پڑی ہے لیکن اعتماد کا بھی فقدان ہے۔

بابر اعظم سے بہت زیادہ امیدیں ہیں لیکن اظہر اور اسد اگر گذشتہ دوروں کا تجربہ استعمال میں لاتے ہیں تو بابر پر دباؤ کم ہوگا۔

اظہر علی نے اگرچہ ایک سنچری سکور کی ہے لیکن وہ سنچری اس وقت بنی جب پاکستانی بولرز تھک چکے تھے۔ 

بابر اعظم اور اسد شفیق نے  کوئی بڑی اننگز نہیں کھیلی ہے تاہم یہ تکون پہلے ٹیسٹ کے لیے یقینی ہے اور ٹیم کی سب سے بڑی امید بھی یہی ہے۔

اگر ان تین میں سے کوئی ایک بھی اچھی اننگز کھیل گیا تو ٹیم کی پوزیشن مضبوط کردے گا۔

مسئلہ کہاں پر ہے ؟

مسئلہ ٹیم کا وہی پرانا ہے جہاں اوپنرز اچھا آغاز فراہم نہیں کر پاتے ہیں اور پوری  بیٹنگ لائن دباؤ میں آجاتی ہے۔

شان مسعود پچھلے ایک سال سے ٹیم کے مستقل اوپنر ہیں اور ملی جلی کارکردگی دکھا کر ٹکے ہوئے ہیں لیکن ان کے ساتھ پچھلے تین ٹیسٹ میچز میں راولپنڈی کے عابد علی نے اوپننگ کی اور دو تین اچھے آغاز فراہم کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انگلینڈ کے موجودہ دورے پر عابد علی یکسر ناکام رہے ہیں اور شان مسعود بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ 

امام الحق تیسرے اوپنر ہیں۔ وہ اگرچہ بیک اپ کے طور پر ہیں لیکن اگر عابد علی کی کارکردگی کسی ریڈار پر آتی ہے تو ممکن ہے امام الحق کو ٹیم میں واپسی کا پروانہ مل جائے۔

عابد علی کے لیے یہ ایک مشکل ترین سیریز ہوگی۔ انگلینڈ میں ڈیوک گیند استعمال ہوتی ہے جو بہت زیادہ ہوا میں سوئنگ ہوتی ہے اس لیے عابد علی اگر پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہیں تو بہت ہوشیاری چاہیے ہوگی۔

مڈل آرڈر میں چھٹے نمبر پر کون کھیلے گا؟

فواد عالم ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی زبردست کارکردگی کی بدولت ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن کیا وہ کھیلیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔

کیوں کہ پریکٹس میچز میں فواد کچھ خاص نہیں دکھا سکے ہیں۔ ان کا اس پوزیشن پر مقابلہ لیگ سپنر شادب خان سے ہے  جو سابقہ پی ایس ایل میں ایک اچھے بلے باز کے روپ میں سامنے آئے ہیں اور موجودہ پریکٹس میچز میں بھی نمایاں رہے ہیں۔

اولڈ ٹریفورڈ کی پچ میں سختی اور اچھال کے باعث سپنرز کے لیے کافی مدد ہوتی ہے اور اگر شاداب کھیلتے ہیں تو اضافی سپنر بھی ہوں گے۔

مصباح الحق کے لیے ان دو میں سے ایک کا انتخاب خاصا مشکل ہوگا۔

وکٹ کیپر محمد رضوان نے پریکٹس میچ میں سنچری سکور کرکے اپنی صرف جگہ ہی نہیں بلکہ کوچ کے اطمینان کو بھی راسخ کیا ہے، رضوان اس وقت پاکستانی دستے میں سب سے نمایاں بلے باز ہیں۔

بولنگ میں سیلیکشن بہت آسان ہے۔ شاہین شاہ، نسیم شاہ اور محمد عباس کی جگہیں حتمی ہیں اور کسی تبدیلی کے کوئی آثار نہیں۔

ویٹرن فاسٹ بولر سہیل خان نے تیاری کے میچوں میں دو دفعہ پانچ کھلاڑی آؤٹ کیے ہیں لیکن ان کے کھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہےکیونکہ ان کو تو فقط کھلاڑیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے شامل کیا گیا ہے ورنہ عام حالات میں وہ کراچی میں آرام کررہے ہوتے۔

سپن کا شعبہ یاسر شاہ سنبھالیں گے۔ یاسر اگرچہ انگلینڈ میں کامیاب رہے ہیں اور اس دفعہ بھی انگلینڈ کے نوآموز بلے بازوں کو پریشان کرسکتے ہیں لیکن انھیں ہوا کا استعمال کرنا ہوگا جو وہ متروک کرتے جارہے ہیں۔

پاکستان ٹیم انگلینڈ کے ساتھ مقابلے کے لیے کتنی تیار ہے اس کا جواب دینا تو مشکل ہے، لیکن بلے بازوں کی فارم کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پچھلے تمام دوروں کی طرح اس دفعہ بھی زیادہ تر امیدیں بولرز سے ہی وابستہ ہوں گی۔

انگلینڈ کی بیٹنگ لائن میں بین سٹوکس زبردست فارم میں ہیں جبکہ ڈوم سبلی بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف سنچری سکور کرچکے ہیں۔

کپتان جو روٹ اور اولی پوپ بھی سکور کررہے ہیں  یہ سب مل کر پاکستانی بولرز کو سخت وقت دے سکتے ہیں۔

انگلینڈ کی بولنگ بھی زبردست فارم میں سٹیورٹ براڈ اور جوفرا پاکستانی بلے بازوں کو صحیح آزمائش میں ڈالیں گے۔

پاکستانی ٹیم سولہویں دفعہ انگلینڈ کا دورہ کررہی جبکہ پچھلے پندرہ دوروں میں صرف تین دفعہ وہ سیریز جیت سکی ہے اور تینوں دفعہ کامیابیاں فاسٹ بولرز کے مرہون منت تھی۔

قومی ٹیم کے موجودہ دورے پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ اب تک دورے کرنے والی ٹیموں میں سب سے کمزور ٹیم ہے اور بیٹنگ کے ساتھ بولنگ میں بھی تجربہ کا فقدان ہے۔

نوجوان خون ہونے کے باعث موہوم سی توقع ہے کہ شاید ٹیم کچھ کر دکھائے لیکن جس طرح ٹیم نےآسٹریلیا میں ہتھیار ڈالے تھے اس کو دیکھتے ہوئے کسی جیت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

کرونا کے باعث ٹیم کو محدود تیاری کا موقع ملا ہے جس کا انگلینڈ کی ٹیم پورا فائدہ اٹھائے گی۔

ابر آلود موسم میں انگلش فاسٹ بولرز کی سوئنگ کا سامنا کرنا شاید ہمالیہ پر چڑھنے کے مترادف ہو جہاں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے اور غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ