بھارت میں زندہ بچنے والے بھائی کا بھی نمبر نہیں لگ رہا: شریمتی مکھنی

پاکستان چھوڑ کر جودھپور، بھارت گئے ایک خاندان کے 11 افراد کی پراسرار ہلاکت کا معمہ حل نہ ہوسکا۔ پاکستان میں مقیم لواحقین میں سے ایک خاتون کا کہنا ہے کہ زندہ بچے والے واحد بھائی سے بھی رابطہ نہیں ہوا، ویڈیو میں ان کے بیٹے کا بیان ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

بھارتی ریاست راجستھان میں ضلع جودھپور کے نواحی گاؤں میں سندھ سے گئے ہندوؤں کے ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کی ہلاکت کا معمہ تاحال حل نہ ہوسکا ہے جبکہ پاکستان میں مقیم لواحقین میں سے ایک خاتون کا کہنا ہے کہ وہ بھارت میں واحد زندہ بچنے والے بھائی سے رابطہ نہیں کر پائی ہیں۔  

اتوار کو ہلاک پائے گئے متاثرہ خاندان کا تعلق سندھ کے ضلع سانگھڑ کے شہر شاہ پور چاکر کے ایک نواحی گاؤں تاج محمد ڈاہری سے تھا، جہاں وہ ایک مقامی زمیندار کے پاس کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔

مقامی لوگوں کے مطابق متاثرہ خاندان کے سربراہ بڈھا رام 2012 میں پورے خاندان سمیت بھارت چلے گئے تھے، جہاں انہوں نے جودھپور کے ایک نواحی گاؤں میں کچھ زرعی زمین کرائے پر لے کر کھیتی باڑی کا کام شروع کیا تھا اور اسی زمین پر رہنے کے لیے چند جھوپڑے بھی  بنائے۔

اتوار کی صبح خواتین اور بچوں سمیت اس خاندان کے گیارہ افراد کی لاشیں نزدیکی کھیتوں سے ملیں۔  

بھارتی میڈیا کے مطابق پولیس کو وہاں کیمیکل اور انجیکشن لگانے میں استعمال ہونے والا سامان اور لاشوں پر ٹیکوں کے نشان بھی ملےجس سے یہ مفروضہ قائم ہوا کہ ہو سکتا ہے یہ ایک خودکشی ہو تاہم تفتیش ابھی جاری ہے۔

شاہ پور چاکر میں مقیم سندھی اخبار کاوش کے صحافی نواز بروہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ متاثرہ خاندان کے سربراہ بڈھا رام پورے خاندان سمیت بھارت منتقل ہوگئے تھے مگر ان کی ایک بیٹی شریمتی مکھنی، جن کی شادی شھدادکوٹ شہر کے ایک گاؤں میں ہوئی، وہ اب بھی یہاں مقیم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رابطہ کرنے پر شریمتی مکھنی نے بتایا: 'ہمارے خاندان کے سب افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جبکہ خاندان کے واحد زندہ بچنے والے میرے بھائی دلیر بھیل کا نمبر مسلسل بند ہونے کے باعث رابطہ نہیں ہورہا، بھارت سے کوئی خبر نہیں کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔ میڈیا سے پتہ چلا ہے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی آخری رسومات بھی وہیں ادا کردی گئی ہیں۔' ان کے بیٹے سدھیر بھیل کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھارت حکومت ہلاک شدہ خاندان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے خصوصی اجازت دے۔

سیاسی سرگرمیاں اور خاندانی جھگڑے

صحافی نواز بروہی کے مطابق متاثرہ خاندان بھارت جانے سے پہلے سیاسی طور پر سرگرم رہا۔

ان کا کہنا تھا: 'خاندان کے سربراہ رسول بخش پلیجو عوامی تحریک کے کسان ونگ 'ہاری تحریک' میں ضلعی عہدیدار رہے، ان کی بیٹی شریمتی لکشمی عوامی تحریک کے خواتین ونگ 'سندھیانی تحریک' کی دو سال تک صدر رہیں، جبکہ ان کے بیٹے دلیر بھیل 'سجاگ بارتحریک' میں سرگرم رہے۔ انہوں نے عوامی تحریک کی جانب سے نکالے گئے لانگ مارچ میں بھی بھرپور حصہ لیا۔' 

سندھ میں رہائش کے دوران متاثرہ خاندان کے افراد ماضی کے قوم پرست طلبہ رہنما اور وکیل دادا سلیمان داہری کی زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔  

دادا سلیمان داہری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'بڈھا رام کا خاندان ایک محنتی کسان خاندان تھا۔ ان کا اپنے رشتہ داروں سے ایک جھگڑا چل رہا تھا اور ان پر کچھ کیس بھی درج تھے۔ اس کے علاوہ بڈھا رام کے دو بیٹوں کی منگنیاں بھارت میں مقیم ان کے رشتہ داروں میں کی ہوئی تھیں اس لیے وہ یہاں سے بھارت چلے گئے۔ اب پتہ نہیں کیا ہوا کہ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ اب تو بھارتی پولیس کی تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ آخر ان کے ساتھ ہوا کیا۔' 

گاؤں تاج محمد ڈاہری میں مقیم متاثرہ خاندان کے رشتہ داروں کی مطابق ان کی ہلاکت زہریلی انجیکشن دینے سے واقع ہوئی ہے۔ مگر تاحال یہ معمہ حل نہیں ہوسکا کہ ایک ساتھ ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کس طرح ہلاک ہوگئے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا