طالبان مذاکرات سے قبل افغان حکومت کی خواتین کونسل

کونسل کی تشکیل کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے ایک گروپ نے صدر غنی کو طالبان کے ساتھ تاریخی مذاکرات شروع ہونے سے قبل ایک خط میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

(اے ایف پی)

طالبان کے ساتھ مذاکرات سے قبل افغان حکومت نے خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ایک نئی کونسل کے قیام کا اعلان کیا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اعلان کردہ یہ کونسل خواتین کو بااختیار بنائے گی اور گھروں میں ہی ان کے حقوق کو فروغ دیا جائے گا۔

جب کہ خواتین کے حقوق سے متعلق افغان حکومت بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرائے گی۔

انہوں نے کہا: ’ہم اپنے ملک کی تعمیر نو کے لیے حاصل کیا گیا اپنا مقام اور محنت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کونسل کی تشکیل کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے ایک گروپ نے صدر غنی کو طالبان کے ساتھ تاریخی مذاکرات شروع ہونے سے قبل ایک خط میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

فروری میں امریکہ اور طالبان ایک امن معاہدے پر پہنچے تھے لیکن بہت سی افغان خواتین کو خدشہ ہے کہ اس معاہدے میں ان کے حقوق کے لیے مناسب اقدامات شامل نہیں ہیں۔

انہیں خوف ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ملکی سیاست میں طالبان کی شمولیت سے 2001 کے بعد سے خواتین کی تعلیم اور آزادی کے لیے حاصل کی گئی کامیابیاں ختم نہ ہو جائیں۔

افغانستان پر امریکہ کی لشکر کشی سے قبل طالبان دورہ حکومت میں خواتین پر بدترین پابندیاں عائد تھیں۔ وہ تعلیم اور ملازمت کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں جب کہ پابندیوں کی خلاف ورزی پر کوڑوں اور سنگ سار کرنے کی سزا عام بات تھی۔

طالبان نے کہا ہے کہ وہ اپنے آخری قیدیوں کی رہائی کے ایک ہفتے کے اندر قطر میں افغانستان کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس کا مقصد 40 سال سے زیادہ جنگ کو ختم کرنا ہے۔

جمعرات کو افغان حکومت نے 400 میں سے آخری 80 طالبان قیدیوں کو بھی رہا کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کی سخت ناقد اور امن کے عمل میں شامل رکن پارلمینٹ فوزیہ کوفی نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اعلان کردہ اس کونسل سے ملک میں صنفی مساوات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا: ’ایسے ممالک جن میں بہت سی وجوہات کی بنا پر صنفی امتیازات بہت زیادہ ہیں اس کونسل کے قیام جیسے اقدامات یقینی طور پر جمود کو توڑ سکتے ہیں۔‘

صدر غنی نے کہا کہ یہ کونسل کم از کم 26 غیر سرکاری اور سرکاری اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی جن میں مختلف صوبوں کی خواتین ڈپٹی گورنرز بھی شامل ہیں۔

لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ کونسل کے پاس کیا اختیارات ہوں گے۔

کابل میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن آرزو آسنات نے خبردار کیا ہے کہ اس کونسل پر بہت زیادہ اعتماد کرنا ایک غلطی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ کونسل طالبان کے مقابلے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے۔ طالبان گذشتہ کچھ سالوں میں خواتین کو ملنے والے حقوق صلب اور خواتین اور لڑکیوں کو گھروں پر رہنے پر مجبور کرتے دیکھے گئے ہیں۔‘

’اس کونسل کے ارکان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ شدت پسند افغانستان میں خواتین کو دوبارہ نظرانداز نہ کر سکیں۔‘

دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے وہ اب اسلامی قانون اور افغان ثقافت کی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کی اجازت دیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا