فوجی بغاوت کے بعد مالی کے صدر مستعفی، حکومت تحلیل

صدر ابراہیم بوبکر کیتا کو باغی فوجیوں نے حراست میں لے لیا تھا، جس کے بعد انہوں نے بدھ کو کہا ہے کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔

رات گئے صدر  ابراہیم بوبکر کیتانے   حکومت اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

مغربی افریقی ملک مالی کے صدر ابراہیم بوبکر کیتا فوجی بغاوت کے بعد عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ صدر کیتا کو باغی فوجیوں نے حراست میں لے لیا تھا، جس کے بعد انہوں نے بدھ کو کہا کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

مالی کئی ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں بدترین بد امنی دیکھنے کو ملی ہے۔ متنازع انتخابات کے نتیجے میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے صدر کیتا کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

متنازع انتخابات

رواں برس 26 مارچ  کو اپوزیشن لیڈر سمائلہ سیسے کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ انہیں انتخابات سے تین روز قبل اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ پارلیمانی انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ ملک میں ایک سینیئر سیاسی رہنما کے اغوا کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باوجود، جس میں ایک روز قبل پہلے شہری کی ہلاکت ہوئی، 29 مارچ کو مالی کے پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ جاری رہا۔ اس موقعے پر انتخابی عملے کو اغوا کیا گیا جبکہ پولنگ سٹیشنوں پر دھاوا بولا گیا۔ اس دوران بارودی سرنگ کا ایک دھماکہ بھی ہوا۔

19 اپریل کو الیکشن کے دوسرے مرحلے پر انتخابی عمل میں تعطل کے کئی واقعات ہوئے اور ملک کے وسطی اور شمالی حصوں میں شہریوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔

30 اپریل کو مالی کی آئینی عدالت نے 30 کے قریب نشستوں پر نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جن میں 10 صدر کے پارٹی کے ارکان کی تھیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد کئی شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا۔

صدر کے خلاف اتحاد

30 مئی کو بااثر امام محمود دیکو، حزب اختلاف کی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے ایک وسیع اتحاد قائم کر لیا جس نے مظاہرے کی اپیل کی تا کہ صدر کیتا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا سکے۔

صدر کے خلاف تحریک میں تنقید کی گئی کہ وہ ملک میں جہادی سرگرمیوں اور مختلف گروہوں کے درمیان خون ریزی پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ حکومت پر معیشت کی بہتری اور بدعنوانی کے خلاف اقدامات نہ  کرنے سمیت الیکشن کے احسن طریقے سے کرنے میں ناکامی کے الزامات بھی لگائے گئے۔

حکومت کے خلاف مظاہرے

پانچ جون کو ہزاروں افراد نے دارالحکومت بماکو میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ صدر کیتا نے 12 جون کو بوبوسیسے کو دوبارہ وزیراعظم مقرر کر دیا اور انہیں انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری سونپ دی۔

19 جون کو ہزاروں افراد نے ایک پھر احتجاجی مظاہرہ کیا اور صدرکیتا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

جولائی کے شروع میں صدرکیتا نے اپوزیشن کو منانے کی کئی کوششیں کیں لیکن وہ ناکام رہے۔ مخالف تحریک کے رہنماؤں نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا اور لوگوں پر سول نافرمانی کے لیے زور دیا۔

بدترین بدامنی

دس جولائی کو بماکو میں ہونے والے عوامی مظاہرے کے دوران تشدد کے واقعات پھوٹ پڑے۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا اور سرکاری نشریاتی ادارے کی عمارت میں داخل ہو گئے۔

مظاہرین او سکیورٹی فورسز کے درمیان تین دن تک جھڑپیں جاری رہیں۔ اس طرح ملک 2012 کے بعد بدترین سیاسی بدامنی کا شکار ہو گیا۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق پرتشدد واقعات میں 11 افراد مارے گئے جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ 23 ہلاکتیں ہوئیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے ہلاکتوں کی تعداد 14 بتائی۔

کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا

18 جولائی کو اپوزیشن نے نائیجیریا کے صدر گڈلک جوناتھن کی سربراہی میں عالمی مصالحتی ٹیم کی جانب سے سمجھوتے کی تجویز مسترد کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغربی افریقی ملکوں کے اقتصادی کمیونٹی کے بلاک نے صدر کیتا کا ساتھ دیا لیکن قومی حکومت کے قیام پر زور دیا، تاہم اپوزیشن نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے صدر کے  استعفے کا مطالبہ کیا۔

11 اگست کو بماکو میں دوبارہ مظاہرے شروع ہو گئے۔ اگلے روز سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔ 17 اگست کو اپوزیشن نے دارالحکومت میں ہر روز مظاہرے اور ہفتے کے اختتام پر بڑی ریلی کا اعلان کیا۔

فوجی بغاوت

18 اگست کو باغی فوجیوں نے بماکو کے باہر ایک فوجی اڈے پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے صدر کیتا اور وزیراعظم سیسے کو تحویل میں لے لیا اور انہیں فوجی اڈے میں لے گئے۔

افریقی ملکوں کے اقتصادی اتحاد نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے جوابی اقدامات کا اعلان یا ہے جن میں مالی پر معاشی پابندیاں بھی شامل ہیں۔

رات گئے صدر کیتا نے سرکاری نشریاتی ادارے پر حکومت اور پارلیمنٹ کی تحلیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خون خرابے سے بچنے کے لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب باغی فوجیوں کے رہنماؤں نے سیاسی عمل کی بحالی اور مناسب وقت پر نئے انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا