پاؤلو کوہلو نے بلوچستان کے نوجوانوں کی مدد کے لیے کیوں اپیل کی؟

بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار پاؤلو کوہلو نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے مداحوں سے درخواست کی ہے کہ وہ بلوچستان کے ایک دور افتادہ علاقے کے نوجوانوں کی مدد کریں۔

کوہلو کا شمار دنیا کے مشہور ترین ادیبوں میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب ’الکیمسٹ‘ کے کروڑوں نسخے فروخت ہو چکے ہیں (روئٹرز)

شہرۂ آفاق پرتگالی مصنف پاؤلو کوہلو نے بلوچستان کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کی ایک لائبریری کے لیے کتابیں بھیجنے کی درخواست کی ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس لائبریری کے بارے میں سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

اس لائبریری کا خواب خضدار کی تحصیل وڈھ کے تین نوجوانوں نے تین برس قبل دیکھا اور اپنی مدد آپ کے تحت تین سال کی جدوجہد کے بعد اسے فعال کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

پاؤلو کوہلو نے اپنی ٹویٹ میں اس بارے میں لکھا: ’بلوچستان کے لیے کتابیں بھیجیں۔ وہ لوگ ریڈنگ روم بنا رہے ہیں۔‘

اس سے قبل کوہلو نے اعلان کیا تھا کہ وہ افریقہ کے دیہی علاقوں میں اپنی کتابیں مفت بانٹیں گے۔ کوہلو کو ہمیشہ سے شکایت رہی ہے کہ پبلشر کتابوں کی قیمت بہت زیادہ رکھ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت سے لوگوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ 

خضدار میں علم کے متلاشی

اس لائبریری کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اپنے علاقے میں کسی لائبریری کی کمی محسوس کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے خضدار میں واقع گاؤں وڈھ کے طلبہ نے آج سے تقریباً تین برس قبل دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ انہوں نے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے انہیں کچھ حاصل کرنے یا پھر لائبریری کی تعمیر میں ممکنہ مدد کی توقع تھی، لیکن ہزارہا تسلیوں، دلاسوں اور امید دینے کے باوجود یہ لائبریری بن نہیں پائی۔

پھر ان طلبہ کے بعد کچھ اور نوجوان اور معاشرے کی پسماندگی و ناخواندگی پر حساس طلبہ سامنے آئے اور اپنے پچھلے ساتھیوں کے ساتھ لائبریری کی تعمیر کا بیڑا پھر سے اپنی مدد آپ کے تحت اٹھایا۔ سب سے پہلے وہ اسسٹنٹ کمشنر وڈھ جناب محمد اقبال کھوسہ کے پاس گئے اور ان سے وہی پرانی عمارت ’وڈھ سٹوڈنٹس لائیبریری‘ کے نام پر الاٹ کروا کے تقریباً 40 سے زائد طلبہ کی ٹیم کے ساتھ کام شروع کر دیا۔


عمارت کیا تھی، جنوں، بھوتوں اور موالیوں کا اڈا تھا اور کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ان باہمت نوجوانوں نے اس کھنڈر کو اس قابل بنانے کی ٹھان لی کہ کم از کم بیٹھنے کے لائق ہو۔ یہاں طلبہ کو سب سے پہلے اس کھنڈر نما عمارت سے موالیوں کا کچرا اٹھانے اور اس کی صفائی ستھرائی میں ہی کافی وقت لگا۔ ظاہر سی بات ہے جو عمارت سالہا سال سے موالیوں کے قبضے میں ہو، اس میں اتنا گند اور کچرا پڑا رہنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ الغرض طلبہ نے عمارت سے کچرے کے ڈھیر اور شراب کی بوتلیں اٹھا کر باہر پھینکیں اور اس عمارت کو مکمل صاف کردیا۔ ان محنت کش طلبہ کو اس کھنڈر نما عمارت کی صفائی میں ہی ہفتہ دس دن لگے۔

اگلے مرحلے میں ان طلبہ نے ہر تعلیم دوست و صاحب استطاعت آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔ اس خستہ حال عمارت کی چھت تک کو ان طلبہ نے دوبارہ سے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ وہ طلبہ جو کبھی کڑی دھوپ میں نکلنے سے بھی گھبرا جاتے تھے، انہوں نے مسلسل دو مہینے تک اس کھنڈر نما عمارت کو لائبریری کے قابل بنانے میں دن رات مسلسل کام کیا اور آخر کار اب یہ عمارت 80 فیصد تک وڈھ سٹوڈنٹس لاٸبریری کی شکل پا چکی ہے۔

آنے والے چند دنوں میں مختلف کتاب دوست اور ترقی پسند احباب کی مدد و تعاون سے وڈھ سٹوڈنٹس لائبریری کے لیے جو کتابیں بھیجی جا رہی ہیں انہیں جلد از جلد لائبریری میں سجا دیا جائے گا اور اسے طلبہ کے لیے باقاعدہ فعال کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے، بس جستجو اور تلاش کی دیر ہے۔ اسی طرح ان باشعور جنونی اور حساس طلبہ نے جب ٹھان لی کہ ہمارے درد کو ہمارے سوا سمجھنے والا اور دوا دارو کرنے والا کوئی اور ہے ہی نہیں تو ان باہمت اور باحوصلہ نوجوانوں نے از خود اس لائبریری کا بیڑا اٹھایا اور آخر کار لائبریری کو بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ لائبریری اس سماج کے لیے یقیناً کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں جو ان باہمت، باشعور اور حساس طلبہ نے تعمیر کی ہے۔
یہ نوجوان طلبہ باقاعدہ ایک مثال قائم کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے کہ اگر سرکار ہماری بنیادی ضرورت یعنی لائبریری نہیں بناتی تو ہم طلبہ از خود اپنے اپنے علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت اس معاشرے کے لیے لائبریری  کی صورت میں دانش گاہ تعمیر کرسکتے ہیں، جس کی واضح ترین مثال وڈھ سٹوڈنٹس لائبریری ہے۔
وڈھ سٹوڈنٹس لائبریری کے طلبہ کا ارادہ ہے کہ اگر وہ اس ادارے کو مکمل اور فعال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انہیں نیک دل روشن خیال حضرات کا مزید تعاون و امداد حاصل رہتی ہے تو پھر وہ ایک ایسا ہی الگ ادارہ لڑکیوں کے لیے بھی تعمیر کریں گے تاکہ وہاں لڑکیاں باقاعدہ آزادی کے ساتھ علم و روشنی کا سفر جاری رکھ سکیں اور اس ادارے میں وہ ٹالسٹائی، بورخیس، پروفیسر نوم چومسکی، پروفیسر یووال نوح ہراری، ایڈورڈ سعید اور پاؤلو کوہلو جیسے ادیبوں اور علما سے ان کی کتابوں کے ذریعے براہ راست ملاقات کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب