بدل رہا ہے خیبر پختونخوا

انتخابات جیتنے کی غرض سے ہم نے ان منصوبوں پر اربوں لگائے جو بڑے عالی شان نظر آتے تھے لیکن ان کے برعکس جن کے پاس علاج کرانے کے پیسے نہیں وہ مرتے رہے۔

عمران خان نے کہا تھا وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ ان کی خیبر پختونخوا کی ٹیم نے ایک مثالی اور تاریخی اقدام اٹھایا جس کے بعد مجھے عمران خان کا یہی جملہ یاد آیا۔

خیبر پختونخوا کی آبادی یعنی تقریبا چار کروڑ سے زائد کو یونیورسل ہیلتھ انشورنس ملے گی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ سہولت صحت انصاف کارڈ کے ذریعے ہر گھرانے میں دس لاکھ روپے تک کا علاج نجی یا سرکاری ہسپتال سے کروانے کی سہولت دی جائےگی۔ اس میں کرپشن کا بھی امکان تھا کہ کوئی شخص اپنا صحت کارڈ کسی کو دے دے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا استعمال کرے تو اس کے تدارک کے لیے اس پروگرام کو نادرا کے ڈیٹا کے ساتھ شناختی کارڈ سے جوڑ دیا گیا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

جب یہ منصوبہ بنا تو اس وقت صرف چار اضلاع میں 25 ہزار روپے تک کا علاج فراہم کیا جانا تھا۔ پھر توسیع ہوئی اور یہ سہولت تمام اضلاع میں پہنچائے جانے کا منصوبہ بنا لیکن صرف ان لوگوں کو جن کا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سکور کم تھا۔

وزیر صحت خیبر پختونخوا تیمور جھگڑا کے مطابق اس سے ان لوگوں میں مایوسی پیدا ہو رہی تھی جن کو یہ سہولت نہیں مل رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا ’جن کے عزیزوں کی زندگیاں بچتی تھیں جب ہمیں ان سے ان کی آرا سننے کو ملیں تو ہمیں یہ حوصلہ ملا کہ ہم اس پروگرام کو پورے صوبے تک بڑھا دیں۔ پانچ سالوں میں اس کا دائرہ بڑھا کر ہم نے پورے صوبے کے لیے دس لاکھ روپےسالانہ تک کر دیا۔‘

تیمور جھگڑا سے جب میں نے پوچھا کہ اس کے پیچھے سوچ کیا تھی اور یہ کیسے ممکن ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جب ہم ٹرینوں پر 170 ارب روپے لگا سکتے ہیں تو ہم18  ارب روپے سال کے سب لوگوں پر کیوں نہیں خرچ کر سکتے؟‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’سب کو دینے کا مقصد یہ تھا کہ مڈل کلاس یا درمیانی آمدن والا طبقے میں بھی جس کی ڈیڑھ لاکھ تنخواہ ہو اور خاندان میں کسی کو کینسر ہو جائے تو زمین بیچنی پڑ جاتی ہے، مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

یونیورسل ہیلتھ انشورنس دینےکا مطلب یہ ہے کہ انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو وہ تمام سہولتیں ملیں گی جن پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ بنیادی علاج جو کہ دو لاکھ روپے تک ہوگا جس میں ایمرجنسی میں داخلہ، زچگی، فریکچر، حادثے کی چوٹیں، جنرل سرجری مثال کے طور پر گال بلیڈر وغیرہ شامل ہیں۔ اعلی درجے کا پیچیدہ علاج چار لاکھ روپے تک ہوگا جس میں قلبی آپریشن، مصنوعی اعضا، گردوں کا علاج، چھاتی کے کینسر کی سکریننگ وغیرہ شامل ہوں گے۔ اضافی علاج معالجے میں مزید چار لاکھ روپے تک کی سہولت دی جائےگی جس میں کینسر کا علاج، گردوں اور جگر کے ٹرانس پلانٹ، ایمرجنسی اور انتہائی نگہداشت وارڈز وغیرہ کی سہولیات شامل ہوں گی۔

تمام آبادی میں تو وہ بھی لوگ شامل ہوں گے جن کو حکومت کی اس مدد کی ضرورت نہیں ہوگی تو اس کے جواب میں تیمور جھگڑا نے بتایا کہ ’جن کو ضرورت نہیں ہے ان کی تعداد بہت بڑی نہیں ہے اور ان کو اس سے باہر رکھنے کے لیے جو مانیٹرنگ کا خرچہ کرنا تھا وہ ان کو یہ سہولت فراہم کرنے سے بہت مہنگا پڑ رہا تھا اس لیے ان کو بھی شامل کر لیا گیا۔‘

اس یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں حکومت خیبر پختونخوا ہر خاندان کے لیے سٹیٹ لائف انشورنس کو تقریبا 2800 روپے کا پریمئیم ادا کرے گی جو کہ سالانہ 18 ارب روپے بنتے ہیں۔ اکتوبر سے جنوری 2021 تک مرحلہ وار اس کو تمام صوبے میں فراہم کر دیا جائےگا۔ اس پروگرام کا آغاز مالاکنڈ سے ہوگا۔

ہمارے ملک کے سنگین مسائل کی وجہ سے اکثر نیندیں اڑ جایا کرتی تھیں لیکن آج اس اہم اقدام کی خبر سن کر بھی نیند اڑ گئی۔ لیکن میری نیند اس لیے نہیں اڑی کہ میں اس اقدام پر خوش نہیں ہوں بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری عمر ہمیں یہی لگتا رہا کہ ہم بہت غریب ملک ہیں اور ہماری ریاست ہمارے علاج کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ یقین ہی نہیں آرہا کہ ہمارے ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے۔

اگر ہو سکتا تھا تو پہلے کیوں نہیں ہوا؟ اس کا جواب یقینا یہی ہے کہ پہلے والوں کی ترجیحات میں شاید صحت، تعلیم، انصاف جیسے انسان کے بنیادی حقوق شامل ہی نہیں تھے۔ اگر یہ ہو سکتا تھا اور نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے والے یہ کرنا نہیں چاہتے تھے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی لوگ اس پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے گھر میں شاید کبھی کوئی خطرناک مرض داخل نہیں ہوا ہب، اللہ کرے آگے بھی نہ ہو۔ لیکن میرے دو انتہائی قریبی عزیز کینسر کی وجہ سے دنیا چھوڑ گئے۔ چند ایسے لوگوں کو بھی جانتی ہوں جو بڑا زبردست کاروبار چلا رہے تھے۔ پشاور میں ان کی کامیاب دکانیں تھیں اور ان کی والدہ کو جب کینسر ہوا تو ان کے علاج کے لیے ایک ایک کر کے انہیں اپنی دکانیں بیچنی پڑیں اور ان پر شدید محتاجی آگئی۔ ایسے امراض کا علاج اتنا مہنگا اور مشکل ہوتا ہے کہ مریض تو بعد میں مرتا ہے گھر والے پہلے مر جاتے ہیں۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ریاست ہوتی ہے ماں جیسی تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس ریاست سے عوام کو دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک معیاری علاج اور دوسرا معیاری تعلیم۔ میرے اس ملک میں چاہے جس کی بھی حکومت آئی ان سب نے ہمارے ذہنوں میں دو باتیں ڈالیں ایک یہ کہ ہم ایک انتہائی غریب ملک ہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستان میں بہت کچھ نہیں ہو سکتا۔

انتخابات جیتنے کی غرض سے ہم نے ان منصوبوں پر اربوں لگائے جو بڑے عالی شان نظر آتے تھے لیکن ان کے برعکس جن کے پاس علاج کرانے کے پیسے نہیں وہ مرتے رہے۔ مائیں ہسپتالوں کے دروازوں پر بچوں کو جنم دیتی رہیں۔ کئی مریض تو ایسے ہیں جو دور دراز علاقوں سےٹانگے، گدھا گاڑیوں پر ہسپتال پہنچتے ہیں اور پہنچتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے اگر دس منٹ پہلے آجاتے تو جان بچ جاتی۔ ہمارے بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں کیونکہ عوام کو علم، شعور اور آگاہی نہیں دی گئی کہ ماں کی صحت سے بچے کی صحت جڑی ہے۔

ہمارے ایک صوبے خیبر پختونخوا کی ہی اگر ہم بات کریں تو اس ایک صوبے کی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق تقریبا ساڑھے تین کروڑ تھی جو آج یقینا چار کروڑ ہوگی۔ اس کا موازنہ اگر ہم کینیڈا سے کریں تو اس پورے ملک کی آبادی تقریبا پونے چار کروڑ ہے۔ ہمارے حاکموں نے کبھی آبادی کے مسئلے کو سلجھانے کا کوئی موثر اقدام نہیں کیا۔ بے ہنگم آبادی ہمارا یقینا ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے صحت، تعلیم اور انصاف کا نظام بھی موثر نہیں رہا۔

امریکہ کہنے کو تو عالمی ایٹمی طاقت ہے، معاشی طاقت ہے لیکن وہاں پر بھی تمام آبادی کا علاج ان کی حکومت نہیں کرا رہی سوائے چند ریاستوں کے۔ یورپ، برطانیہ، کینیڈا اور چند ہی فلاحی ممالک ہیں جہاں علاج کرانے کے لیے عوام کو حکومت کی مدد حاصل ہے۔ ان چند ممالک کی دوڑ میں ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا بھی شامل ہوگیا ہے لیکن ہمیں پورے پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنا ہے۔ تبدیلی یقینا آتی ہے لیکن اس پر وقت بھی لگتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ