پلوامہ حملہ: جیش محمد کے مسعود اظہر، دیگر رہنماؤں کے خلاف فرد جرم دائر

نامزد ہونے والوں میں مسعود اظہر کے بھائی اور کزن بھی شامل۔ چارج شیٹ کے مطابق تمام ملزم پاکستان میں ہیں لیکن مسعود اظہر کے سابق محافظ پر شبہ ہے کہ وہ بھارت میں ہیں۔


جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر (اے ایف پی)

بھارت کے تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے پلوامہ حملے کی فرد جرم عدالت میں داخل کر دی ہے، جس میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر سمیت تنظیم کی اعلیٰ قیادت کو نامزد کیا گیا ہے۔

نامزد ہونے والوں میں مولانا مسعود اظہر کے بھائی اور نائب عبدالرؤف اصغر اور کزن عمار علوی بھی شامل ہیں۔ فردِ جرم کے مطابق یہ تمام ملزم پاکستان میں ہیں جب کہ مسعود اظہر کے سابق محافظ محمد اسماعیل پر شبہ ہے کہ وہ بھارت میں ہیں۔ اس کے علاوہ فرد جرم میں چھ کشمیریوں کے نام بھی شامل ہیں، جن پر حملہ کرنے والوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا الزام ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مجموعی طور پر 19 ملزموں کے خلاف ساڑھے 13 ہزار صفحات پر مشتمل چارچ شیٹ داخل کی گئی ہے، جس کے مطابق 19 ملزموں میں سےایک خود کش بمبار کے علاوہ چھ مارے جا چکے ہیں جب کہ چھ گرفتار اور چھ مفرور ہیں۔ مارے جانے والوں میں مولانا مسعود اظہر اور عبدالرؤف کے بھتیجے محمد عمر فاروق شامل ہیں۔

این آئی اے کے ایک افسر کے مطابق مولانا مسعود اظہر نے میبنہ طور پر عمر فاروق کو 2018 میں براہ راست ذمہ داری دی تھی کہ وہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں داخل ہو کر 'پاکستان میں تیار کی گئی سازش' کو عملی شکل دینے کی نگرانی کریں۔

فرد جرم میں ضلع پلوامہ کے علاقے کاکا پورہ سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ انشا جان اور ان کے والد طارق احمد شاہ کا نام بھی ہے۔ باپ بیٹی کو اس سال مارچ  میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جیش محمد نے عادل احمد ڈار کی جو ویڈیو جاری کی تھی وہ مبینہ طور پر انہی کے گھر میں بنائی گئی تھی۔

فرد جرم میں حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ این آئی اے کے مطابق اس کے پاس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ’ناقابل تردید‘ شواہد ہیں جو  کال ریکارڈنگ، واٹس ایپ چیٹنگ اور جیش محمد کے ’پاکستانی کمانڈر‘ عمر فاروق کے موبائل فون سے ملنے والے ثبوتوں پر مشتمل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرد جرم میں رنبیر پینل کوڈ کی دفعات، آرمز ایکٹ، دھماکہ خیز مادہ ایکٹ، فارنرز ایکٹ اور جموں و کشمیر پبلک پراپرٹی ایکٹ کے تحت الزامات لگائے گئے ہیں۔

پلوامہ حملے کے بعد سری نگر جموں قومی شاہراہ پر سکیورٹی فورسز کے قافلوں کی آمد ورفت کے لیے دو دن مخصوص کر دیے گئے تھے۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں رہنے والے کشمیریوں کے گرد گھیرا تنگ کر لیا گیا ہے جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی طلبہ کو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔

حملے کے بعد بھارتی وزارت داخلہ نے اوڑی اور پونچھ کراسنگ پوائنٹس کو بند کر دیا۔ ان پوائنٹس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بس سروس بھی معطل کر دی گئی۔ روئٹرزکے مطابق این آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ چارج شیٹ میں پاکستان میں قائم تنظیموں کا بھارت میں دہشت گرد حملوں اور کشمیری نوجوانوں کو اشتعال دلانے میں مکمل طور پر ملوث ہونا ریکارڈ پرلایا گیا ہے۔

این آئی اے کے مطابق ملزموں میں سے ایک 20 سالہ نوجوان ہیں جس کا تعلق سری نگر سے ہے۔ انہوں نے ساتھیوں کو بم بنانے میں مدد دینے کے لیے آن لائن سٹور ایمزون پر چار کلوگرام ایلومنیم پاؤڈر کا آرڈر دیا۔ یاد رہے کہ 14 فروری، 2019 کو ہونے والے حملے میں پیراملٹری پولیس کے 40 اہلکارہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپیں ہوئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا